مشرف کے اسرائیل سے خفیہ روابط

206

اب اس راز پر سے پردے اٹھتے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں 2007 میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے دوران جب فوجی آمر، پرویز مشرف کے اقتدار کی کشتی ڈگمگا رہی تھی تو اسرئیل کو اس قدر تشویش کیوں تھی اور اسرائیلی رہنما، امریکا پر کیوں دباؤ ڈال رہے تھے کہ مشرف کو بچانے کے لیے فی الفور کارروائی کی جائے۔
اسرائیلیوں کی تشویش کا انکشاف، تل ابیب میں امریکی سفارت خانہ کے خفیہ پیغامات سے ہوتا ہے جو وکی لیکس میں افشا ہوئے ہیں۔ 17اگست 2007کو امریکا کے نائب وزیر خارجہ برنس کی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ میئر داگان سے ملاقات کے بارے میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانہ کے خفیہ تار میں کہا گیا تھا کہ داگان نے مشرق وسطیٰ میں پاکستان اور ترکی کے رول کے بارے میں تجزیہ پیش کیا تھا۔ اس دوران داگان نے پرویز مشرف کے بارے میں سخت تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ مشرف کو سیاسی بحران اور شدت پسندوں کے سنگین مسئلہ کا سامنا ہے اور خطرہ ہے کہ مشرف کے بعد کہیں پاکستان کی جوہری تنصیبات شدت پسندوں کے قبضہ میں نہ چلی جائیں۔ داگان کا کہنا تھا کہ مشرف کے لیے صدر اور کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھالنا مشکل ہوگا اور اگر مشرف فوج کے سربراہ کا عہدہ نہ سنبھال سکے تو انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیل کے ساتھ پرویز مشرف کی پریت اور گہرے تعلقات خاطر کا سلسلہ دراصل 24 جون، 2003 کو کیمپ ڈیوڈ میں بش سے مشرف کی ملاقات کے بعد شروع ہوا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ میں نہ جانے کیسا جادو ہے کہ جو بھی وہاں امریکی صدر سے ملاقات کرتا ہے، اس کا ایسا گرویدہ ہو جاتا ہے کہ جو امریکی صدر کہتا ہے اس پر سر جھکا دیتا ہے۔ جمی کارٹر نے یہیں ستمبر 1978میں مصر کے صدر سادات کی اسرائیل کے وزیر اعظم مناخن بیگن سے ملاقات کرائی تھی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان صلح کا سمجھوتا طے پایا تھا۔
2003 میں کیمپ ڈیوڈ میں بش سے ملاقات کے بعد جس میں پاکستان کو 2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور امریکا کو پاکستان پر ڈرون حملوں کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی، پرویز مشرف نے، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان کے میڈیا پر زور دیا تھا کہ اس مسئلہ پر بحث کی جائے بلکہ وزارت خارجہ کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد اور مثبت پہلوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہی نہیں پرویز مشرف نے دو سال تک اسرائیل سے خفیہ مذاکرات کے بعد 2005 میں اپنے وزیر خارجہ خورشید قصوری کو استنبول میں اسرائیل کے وزیر خارجہ سلون شولوم سے ملاقات کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے قیام کے بعد پاکستان اور اسرائیل کے وزراخارجہ کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی لیکن لوگ یہ بھول گئے کہ 1953میں پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اسرائیل کے وزیر خارجہ ابا ایبان سے نیویارک میں ملاقات کی تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی استواری کے امکانات کا جائزہ لیا تھا۔
قصوری۔ شولوم ملاقات کے بعد بڑی تیزی سے پرویز مشرف اور اسرائیلوں کے درمیان روابط کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ استنبول کی ملاقات کے دو ہفتے بعد ہی، نیویارک میں پرویز مشرف نے امریکی یہودیوں کی کانگریس AJC کے عشائیہ میں شرکت کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلم ملک کے سربراہ نے امریکی یہودیوں کی کانگریس کو خطاب کیا۔ پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اسرائیل سے کوئی تنازع نہیں۔ مشرف نے کانگریس کو یقین دلایا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے عمل کی پیش رفت کے ساتھ، پاکستان، اسرائیل سے رشتے استوار کرنے کے اقدامات کرے گا۔ عشائیہ میں شرکت کرنے والوں نے کھڑے ہو کر مشرف کے خطاب پر اپنی طمانیت کا اظہار کیا۔ اس عشائیے کے بعد AJC کے صدر جیک روزن کو مشرف نے اسلام آباد آنے کی دعوت دی تھی اور ان سے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار کرنے کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
اس عشایئے کے تین روز بعد، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک استقبالیے میں پرویز مشرف نے خود بڑھ کر اسرائیل کے وزیر اعظم ایریل شیرون سے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور اپنی بیگم کا شیرون سے تعارف کرایا۔ صد حیف کہ اسی روز مغربی بیروت میں فلسطینیوں کے کیمپ صابراشطیلا کے ہولناک قتل عام کی 23 ویں برسی تھی۔ تین روز تک جاری رہنے والے اس بہیمانہ قتل عام کا حکم ایریل شرون نے دیا تھا۔ اس وقت وہ وزیر دفاع تھے۔ شیرون کے یہی ہاتھ جن سے، مشرف نے اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھ کر اپنے ہاتھ ملائے تھے، سات ہزار چھ سو فلسطینیوں کے خون سے لت پت تھے، جن میں نہتے مرد بے گناہ عورتیں، معصوم ننھے بچے اور عمر رسیدہ افراد، سب ہی شامل تھے۔ پاکستان کے صدر کے لیے اس والہانہ انداز سے فلسطینیوں کے قتل عام کے اس مجرم سے ہاتھ ملانا پوری پاکستانی قوم کے لیے باعث شرم تھا۔
2012میں لندن میں اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران، اسرائیلی روزنامہ حارث کی خاتون صحافی دانا ہرمن کے انٹرویو میں، پرویز مشرف نے ایریل شیرون کو عظیم فوجی لیڈر قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ان دنوں ناول پڑھنے کے بجائے اسرائیل کی فوجی فتوحات کی تاریخ پڑھتے ہیں جن کا سہرا ایریل شیرون کے سر ہے۔
2007 میں جب عدلیہ کی آزادی کی تحریک نے مشرف کو گھیرا تھاتو اس زمانے میں اسرائیل کے صدر شمون پریز نے اپنے ’’دوست‘‘پرویز مشرف کو بچانے کی کوشش کی تھی اور پیپلز پارٹی کی حکومت پر مختلف سفارتی راستوں سے دباو ڈالا تھا کہ مشرف کا مواخذہ نہ کیا جائے۔ شمون پریز اور مشرف کی 2005میں داوس، سوئزر لینڈ میں ملاقات ہوئی تھی جب سے دونوں گہرے دوست بن گئے تھے۔ سیاسی گھاگ شمون پریز نے بھانپ لیا تھا کہ پاکستان کے اس ڈکٹیٹر کو امریکا کی مدد سے بہ آسانی رام کیا جا سکتا ہے اور اسرائیل کے مفاد کے لیے کام لیا جاسکتا ہے۔ 2007میں پرویز مشرف کے صدر منتخب ہونے پر شمون پریز نے مبارک باد کا نہایت جذباتی پیغام بھیجا تھا۔ اس وقت جب پرویز مشرف مواخذے کے مطالبہ کے طوفان میں گھرے ہوئے تھے، شمون پریز نے پرویز مشرف کے بہ حفاظت پاکستان سے باہر لے جانے اور انہیں بیرون ملک سیکورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ پرویز مشرف کی معزولی کے بعد جلاوطنی کے زمانہ میں شمون پریز بڑی باقاعدگی سے ان سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے۔
2008میں جب مشرف کی معزولی ہوئی تو کینیڈا کے کینیڈین جویش نیوز نے لکھا تھا۔ ’’یہودیوں کے عظیم دوست اور مغرب کے اتحادی کا دور ختم ہوا‘‘
عربوں اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کے لیے، اسرئیلی، پرویز مشرف کی کوششوں کو بڑی وقعت اور تحسین کی نظر سے دیکھتے تھے اور انہیں اس پر ناز تھا کہ واحد جوہری مسلم ملک کا سربراہ ان کا حامی ہے۔ پرویز مشرف، عرب اسرائیل تنازع حل کرنے کے لیے، پاکستان، ترکی، ملایشیا اور انڈونیشیا پر مشتمل مصالحتی گروپ بنانا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے اسرائیل جانے کے لیے بے تاب تھے، لیکن انہیں اپنی اس خواہش اور کاوش کو عملی جامہ پہنانے کا موقع نہ مل سکا۔ ان ہی اقدامات اور عوامل کی بنیاد پر اسرائیل، مشرف کو اپنا بے حد قریبی اور انتہائی معتبر دوست گردانتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ 2007میں جب مشرف کے اقتدار کی کشتی ڈگمگا رہی تھی تو اسرائیل کو مشرف کے بارے میں سخت تشویش تھی اور اسرائیلی رہنماوں کی طرف سے انہیں بچانے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔