بلدیہ کراچی

95

شہریوں کو توقع تھی کہ بلدیاتی انتخابات ہونے میئر و ڈپٹی میئر اور دیگر منتخب نمائندوں کے چارج سنبھالنے کے بعد بلدیاتی اداروں خصوصاًََ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں جاری کرپشن کا سلسلہ رک جائے گا اور عوامی نمائندے اس پر سخت ایکشن لیں گے، لیکن یہ بات شہریوں کی خوش فہمی ہی ثابت ہوئی۔ کرپشن کا خاتمہ تو کجا، کرپٹ افسران کو منتخب نمائندوں نے اپنا مشیر خاص ہی بنالیا، جنہوں نے نہ صرف پہلے سے جاری بدعنوانیوں کے سلسلے میں اضافہ کیا بلکہ کرپشن کے لیے جدید راستے بھی اختیار کرلیے۔ دوسری طرف اختیارات نہ ہونے کا واویلا تو مچایا جارہا ہے، مگر جلد بازی میں تیزی کے ساتھ صرف کمیشن کے حصول پر توجہ دی جارہی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین کی تحقیقات کے مطابق التوا میں پڑے ہوئے بقایاجات کی ادائیگی ترجیحی بنیادوں پر کی جارہی ہے۔ میئر کراچی کے ایم سی کے منصوبوں کے بجائے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے پروگرام پر توجہ دے رہے ہیں، حالاں کہ شہر کی ڈی ایم سیز کا کے ایم سی یا میئر کراچی سے صرف اتنا تعلق ہے کہ وہ کراچی کے میئر ہیں، وہ بھی بغیر اختیارات کے۔ شہر کی تین ڈی ایم سیز، کورنگی ، شرقی اور وسطی ایسی ہیں، جہاں ایم کیوایم یا میئر کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمینز ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر اورڈپٹی میئر ارشد وہرہ نے اپنی ذمے داریاں سنبھالے کے بعد سے بلاناغہ کوئی نہ کوئی تقریب کے مہمان خصوصی ہوتے ہیں، لیکن ان پروگرامز میں اکثر کا تعلق کے ایم سی کے امور سے نہیں ہوتا، تاہم تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ منتخب قیادت شہر کی بھلائی کے لیے سرگرم ہے ۔
موجودہ بلدیاتی نظام میں میئر سمیت تمام بلدیاتی اداروں کو ماضی کے اختیارات نہ دینے کے حوالے سے پہلے ہی حکومت کی طرف سے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا جاچکا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ منتخب قیادت اختیارات نہ ہونے کا بہانہ بناکر وہ بھی کام کرنے سے گریز کررہے ہیں، جو ان کے اختیار میں ہیں ۔ ان میں اراضی پر ریکوری ، میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کی ریکوری، چڑیا گھر، سفاری پارک اور اسپورٹس کمپلیکس، چارجڈ پارکنگ اور خصوصی بازاروں سے ریکوری شامل ہے۔ ان محکموں کی ریکوری بڑھانے پر عدم دل چسپی کے نتیجے میں سفاری پارک اور زولوجیکل گارڈن کی حالت تباہ ہوتی جارہی ہے، جانور بیمار ہوکر مررہے ہیں، لیکن میٹروپولیٹن کمشنر سمیت کوئی بھی ذمے افسر ان پر توجہ دکھانے میں دل چسپی نہیں لے رہا۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی میں مل بانٹ کر کھانے کا فارمولہ عام ہے ۔ کرپشن کے اس اصول میں سب سے آگے محکمہ میونسپل سروسز ہے، جو دراصل کرپشن کے باعث اب ’’ اینٹی میونسپل سروسز ‘‘ کہلانے لگا ہے۔ یہ محکمہ تقریباً چھ شعبوں پر مشتمل ہے، مگر کسی شعبے کی کارکردگی واضح نہیں۔ اس محکمے کے شعبہ قبرستان میں کرپشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں ہر سال قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے پانچ کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن کسی قبرستان کی نہ چہار دیواری درست ہے اور نہ ہی لائٹوں کا انتظام کیا گیا ہے۔
اس محکمے کا شعبے مشینری پول اور فائر بریگیڈ میں کھلی کرپشن کے قصّے زبان زد عام ہیں۔ فائربریگیڈ کے گیارہ سو ملازمین میں سے تقریباً نصف ملازمین ڈیوٹی پر حاضر ہی نہیں ہوتے بلکہ آدھی تنخواہ کے عوض گھروں پر بیٹھ کر ڈیوٹیاں ادا کرتے ہیں۔ اس کرپشن میں متعلقہ اسٹیشنوں کے اسٹیشن افسر، چیف فائر آفیسربراہ راست ملوث ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ کرپٹ افسران پانچ لاکھ روپے ماہانہ ینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کو پہنچاتے ہیں، جس کے عوض سینئر ڈائریکٹر اندھے، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔ چوں کہ وہ پہلے ہی سے دہری شہریت کے حامل ہیں، اس لیے انہیں کسی ملکی قانون کی کوئی فکر بھی نہیں ہے۔ موصوف کے خلاف ماضی میں نہ صرف انکوائری ہوئی بلکہ انہیں ملازمت سے برطرف بھی کیا گیا، تاہم وہ دوبارہ کسی طرح ملازمت پر نہ صرف بحال ہونے میں کام یاب ہوا بلکہ اپنے بقایا جات بھی وصول کیے۔ مذکورہ افسر ماضی میں سوائے محمد حسین سید کے ہر ایڈمنسٹریٹر کے قریب رہا اور ان دنوں میئر اور ڈپٹی میئر کا خاص مشیر ہے۔ ایسی صورت میں کے ایم سی کی حالت بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز مسعودعالم اور ان کے شعبوں کی خامیوں اور خرابیوں کو ذمے افسران اس طرح نظر انداز کرتے ہیں، جیسے یہ ان کا کام نہیں ہے۔ سنڈے میگزین کی تحقیقات کے مطابق سینئر ڈائریکٹر نے اپنی پرسنل فائل اور سروس بک اپنے پاس ہی رکھی ہوئی ہے۔ یہ وہ افسر ہیں جو 90 کی دہائی میں کے ایم سی میں محکمہ جنگلات سے گریڈ 16 میں آیا تھا، لیکن گریڈ 17اور اس بعد گریڈ 20 تک کے ایم سی میں ترقیاں لیتا رہا۔ سپریم کورٹ نے مختلف محکموں سے آکر ضم ہونے والے افسران کو واپس ان کے محکموں میں بھیجنے کا حکم دیا ہے، لیکن کے ایم سی سے نہ تو مسعودعالم کو واپس ان کے اصل محکمے بھیجا جاتا ہے اور نہ ہی ڈائریکٹر چڑیا گھر فہیم خان کو بھجوایا جاتا ہے ۔ وجہ دونوں ہی افسران حکومت کی بعض شخصیات سے ماہانہ بنیادوں پر ’’ملاقات‘‘ کرتے ہیں۔
اعلیٰ حکام کی آشیرد باد کے نتیجے میں محکمہ میونسپل سروسز کے افسران نے چند سال قبل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دور میں خریدی جدید ایمولینسز، کوچز، کوڑا کرکٹ اور تجاوزات ہٹانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ڈمپر ٹرکس، کاریں، ریفیوز وین، سٹی وارڈنز کی موبائل وین اور دیگر قیمتی گاڑیوں کو سٹی وارڈن کے دفتر میں کھڑا کردیا ہے، جہاں وہ تیزی سے تباہ ہورہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میونسپل سروسز ڈپارٹمنٹ اپنے ہیوی ڈمپرز اور دیگر مشینری کو کرائے پر بھی دیا کرتا ہے ۔اس بات کا انکشاف تحقیقات کے دوران ہوا، جب سنڈے میگزین کی تحقیقاتی ٹیم کو اس بات کا علم ہوا کہ کے ایم سی کے دو ڈمپر ٹرک ایئرپورٹ کے حدود میں ریتی بجری کی منتقلی کے لیے موجود ہیں ۔ان ٹرکوں پر میئر کی سو روزہ صفائی مہم کے بینرز بھی لگے ہوئے ہیں، مگر وہ شہر کی حدود سے دور ائیرپورٹ کی حدود میں استعمال ہورہے ہیں، جب کہ شہر میں صفائی اور دیگر کاموں کے حوالے سے میئر اور ڈپٹی میئر کا یہ مؤقف عام ہے کہ ان کے پاس وسائل اوراختیارت کا فقدان ہے۔
کے ایم سی کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکم رانوں اور کے ایم سی کے افسران نے اسے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سمجھا ہوا ہے، جو مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب لاغر ہوچکی ہے اور کسی بھی وقت دم توڑ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں شہری حسرت سے اپنے منتخب نمائندوں کو دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ جب ان کا انتخاب ہی درست نہیں ہوا تو اب کس سے کیا شکایت کریں؟؟