کراچی میں بارش اور حکمران

176

بارش کا سلسلہ دو دن جاری رہا اور نا اہلی نے رحمت کو زحمت بنا دیا ۔ کراچی ملک کا وہ واحد شہر ہے جو سب سے بڑا ہونے کے ساتھ ایک بلدیہ عظمیٰ، چھ ضلعی بلدیات (جنہیں بلدیہ عالیہ بھی کہا جاتا ہے) یعنی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز (ڈی ایم سیز) اور ایک ڈسٹرکٹ کونسل کراچی پر مشتمل ہے۔ ڈسٹرکٹ کونسل کراچی شہر کے دیہی علاقوں انتظامی لحاظ سے ضلع ملیر اور کورنگی اور غربی کے بعض علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس طرح منقسم بلدیاتی نظام ہونے کے ساتھ اصل شہری ذمے داریاں اور شہری امور کا ذمے دار بلدیہ کراچی ہے۔ جس کے منتخب سربراہ میئر کہلاتے ہیں۔ یہ میئر پروٹوکول کے لحاظ سے وزیر اعلیٰ سندھ کے بعد دوسرے نمبر پرہوا کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب یہ ’’دو نمبر‘‘ بھی نہیں رہے۔ تاہم شہری اداروں میں اپنی حیثیت نمبر ون ہی کہلوانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے تحت ہر اس ادارے اور علاقے میں چلے جاتے ہیں جو اختیارات اور دائرہ کار کے تحت اب ان کا نہیں رہا۔ ایسا بے اختیار انہیں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013نے بنایا ہے۔ اس طرح وہ اب رئیس بلدیہ بھی کہلانے کے شاید حقدار نہیں رہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979کے تحت جب بہترین بلدیاتی نظام وجود میں آیا تھا اس وقت میئر کراچی کے پاس شہر کے تمام بلدیاتی ادارے ہوا کرتے تھے یا وہ کسی نہ کسی طرح ان اداروں کے معاملات کے ذمے دار ہوا کرتے تھے۔ ان اداروں میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈبلیو ایس بی) اور کراچی بلڈنگزکنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے) قابل ذِکر ہے۔ کے ڈبلیو اینڈ ایس بی اور کے بی سی اے تو کے ایم سی کے ذیلی ادارے کہلاتے تھے۔ اس طرح وہ پوری طرح میئر کراچی اور ایڈمنسٹریٹر کراچی کی نگرانی میں کام کرتے تھے ۔ پھر1987میں اس بلدیاتی آرڈیننس میں معمولی ترمیم کرکے چھ زونل میونسپل کارپوریشنز قائم کی گئیں۔ بعد میں ان کا نام ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن رکھ دیا گیا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ لیکن اس نظام کے ہوتے ہوئے صوبائی حکومت میں عوام کی خدمت کے نام پر پہنچنے والوں کے پاس عوامی کام کرانے کے اختیارات نہیں ہوتے تھے۔ اس وجہ سے اربوں روپے کا مجموعی بجٹ بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتا تھا۔ شاید بجٹ کو کنٹرول کرنے اور زیادہ سے زیادہ غیرقانونی آمدنی کے حصول کی وجہ سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001کی مخالف تھی، اس دس سالہ آریننس سے’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ نعرے کے تحت ایسا انتقام لیا کہ پہلے تمام ادارے ہی جو کسی طرح سٹی گورنمنٹ میں شامل کردیے گئے تھے واپس انہیں اپنے کنٹرول میں کیا۔ اسی دوران اس نظام کو جو 2010 میں ختم ہوگیا تھا، 2013 تک اپنے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا لیکن جیسے ہی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ بڑھنے لگا توصوبائی حکومت نے بلدیاتی آرڈیننس 1979ء کو نہ صرف بحال کیا بلکہ اس میں ترمیم کرکے اسے تبدیل کردیا گیا اور سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013لے آیا گیا۔ یہ ایکٹ بلدیات کے نظام کی احیاء نہیں بلکہ اس پر کاری ضرب تھا۔ آج اسی ایکٹ کے تحت بلدیاتی ادارے چلائے جارہے ہیں۔
بات ہورہی ہے بارشوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کی۔ نافذ العمل نئے ایکٹ کے تحت حکومت نے من مانی کرتے ہوئے اور سندھ اسمبلی میں اپنی اکثریت کا فائدہ اُٹھا کر بلدیاتی اداروں
سے ان کی صفائی ستھرائی اور کوڑا کرکٹ اُٹھانے کی ذمے داری اور امور کنٹرول کرنے کے لیے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) تو قائم کیا لیکن اس کے قیام کے دو سال گزرنے کے باوجود اسے فعال نہیں کرسکی۔ دوسری طرف بارشوں سے پیدا ہونے والی صورت حال میں نالوں کی صفائی کی ذمے داری کے ایم سی کے پاس ہی رہنے دی۔ ساتھ ہی اس محکمے کو برقرار رکھا جو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دور میں میونسپل سروسز آف گروپ آفسز کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ بلکہ حکومت یہاں 2011سے تعینات ایک ایسے متنازع افسر کو بھی نہیں ہٹا سکی جو نہ صرف دوہری شہریت رکھتا ہے بلکہ سابق ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر عبدالحق اور سابق سٹی ناظم کے دور میں برطرف کردیا گیا تھا۔ وجہ صرف یہی ہے کہ مذکورہ افسر صوبائی حکام سمیت تمام بااثر شخصیات سے گہرے مراسم رکھتا ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے ہفتے کے روز بارش کے دوران شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’’وہ صبر سے کام لیں کئی سال سے کسی افسر نے کام نہیں کیا، سب کچھ اتنی جلدی درست نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ وسیم اختر جب یہ کہہ رہے تھے تب بھی وہی افسران خصوصاً سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز مسعود عالم ان کے ساتھ اپنے روایتی انداز میں کھڑے تھے۔ یہی وہ افسر ہیں جو آٹھ سال سے ندی نالے صاف کرانے کے نام پر ہر سال پندرہ تا پچاس کروڑ روپے حکومت سے حاصل کرتے رہے۔ لیکن نالے صاف ہوئے اور نہ ہی کوئی کام۔ گزشتہ سال بھی حکومت نے گجر نالے کی صفائی کے لیے ایک ارب روپے خصوصی طور پر جاری کیے۔ لیکن صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز اور دیگر کی موجودگی میں اعلان کردیا کہ نالوں کی صفائی کے لیے پچاس کروڑ روپے جلد جاری کیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صوبائی وزیر اور صوبائی حکومت بلدیہ عظمیٰ کے صرف ایک محکمہ میونسپل سروسز سے یہ پوچھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ گزشتہ سالوں میں مجموعی طور پر خرچ کیے گئے اربوں روپے سے کیا کام کیا گیا، کون سے نالے صاف کیے گئے۔ کون سی گاڑیاں مرمت کرائی گئیں؟
دلچسپ بات یہ کہ مراد علی شاہ ، بارشوں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اچانک ہی کہا کہ ’’ صوبائی وزیر بلدیات میئر وسیم اختر سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے گجر نالا کا بھی دورہ کیا اور بارشوں کے بعد کی صورت حال کو بہتر مگر غیر اطمینان بخش قرار دیا‘‘۔
اب کون ہے جو وزیراعلیٰ کو بتائے کہ آپ کے صوبائی وزیر، میئر وسیم اختر سے زیادہ سنیئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کے رابطے میں رہتے ہیں جو خود براہِ راست بارشوں سے پیدا صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ جناب شاہ صاحب آپ ہمیں یہ بھی بتائیں کہ کیا میئر سے وزیر کے رابطے میں رہنے سے کراچی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، کیا بارشوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کومعمول پر لایا جاسکتا ہے؟ جناب سی ایم اگر آپ واقعی اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں تو آخر آپ نے اپنے صوبائی وزیر سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ بارشوں سے پہلے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے، نالوں کو کیوں صاف نہیں کرایا جاسکا۔شاید آپ کو بھی یہ سوال کرنے میں مشکل ہوگی کیوں کہ ان سب کا قصور وار تو آپ کے قافلے میں ہی صوبائی وزیر کے ساتھ ساتھ ہوگا ناں ؟
کراچی کے شہری حکمرانوں سے یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہیں کہ ’’آخر صرف باتیں اور بیانات کب تک دیتے رہیں گے؟‘‘ کب وہ دن آئیں گے جب آپ شہریوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اور اپنے ضمیر کے مطابق یہ کہہ سکیں گے کہ اب سب کچھ بہتر نہیں بہت بہتر ہوچکا ہے۔ شاہ صاحب جب آپ یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے تو آپ کو کسی قسم کی سیکورٹی کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کیوں کہ لوگ آپ سے محبت کریں گے اور محبت میں وہ خود آپ کی حفاظت کریں گے، بس آپ کراچی کو کراچی بنادیں وہ کراچی جو 1980میں ہوا کرتا تھا اور بابائے شہر عبدالستار افغانی کے دور کا تھا۔