ٹرمپ کی کابینہ، تضادات سے بھرپور پٹارہ

155

امریکا کے منتخب صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنی کابینہ کے اراکین نامزد کیے تھے تو اس وقت کہا گیا تھا کہ یہ بھان متی کا کنبہ ہے لیکن اب سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے، نامزدگیوں کی سماعت کے دوران، کابینہ کے اراکین کے جو نظریات اور موقف سامنے آئے ہیں، ان کے پیش نظر کابینہ تضادات سے بھر پور پٹارہ نظر آتی ہے۔ بہت سے اہم امور اور مسائل کے بارے میں ان کے موقف منتخب صدر ٹرمپ سے بالکل مختلف اور ان کے نظریات کے بر عکس نظر آتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کر دیں گے۔ انہوں نے امریکا میں آباد مسلمانوں کی رجسٹری قایم کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا تھا۔ جیف سیشن سے جنہیں ٹرمپ نے اٹارنی جنرل کے عہدہ پر نامزد کیا ہے، نامزدگی کی سماعت کے دوران جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا مذہب کی بنیاد پر کسی تارک وطن کا امریکا میں داخلہ ممنوع قرار دیا جانا چاہیے تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ مسلمانوں کے امریکا میں داخلہ سے انکار کیا جانا چاہیے۔ جیف سیشن نے کہا کہ وہ امریکا میں مسلمانوں کی رجسٹری کے بھی سخت خلاف ہیں۔
ہوم اینڈ سیکورٹی کے نامزد وزیر جان کیلی نے بھی امریکا میں مسلم امیگریشن پر پابندی عائد کرنے کی تجویز کی مخالفت کی اور مساجد کی کڑی نگرانی کو آئین کے منافی قرار دیا۔
ٹرمپ نے بارہا روس اور صدر پیوتن کے ساتھ دوستانہ تعلقات پربڑے فخر کا اظہار کیا ہے ۔اور حتیٰ کہ اس وقت بھی، پیوتن اور روس پر اپنے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا تھا، جب یہ شہادتیں سامنے آئی تھیں کہ روس نے امریکا میں ہیکنگ کی ہے اور صدارتی انتخاب میں مداخلت کی ہے۔ نامزد وزیر دفاع جیمس میٹس نے نامزدگی کی سماعت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویے کے بالکل برعکس یہ رائے ظاہر کی کہ صدر پیوتن امریکا اور یورپ کے درمیان اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔
سی آئی اے کے نامزد سربراہ پومپیو نے سماعت کے دوران صاف صاف کہا کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ روس نے امریکا میں ہیکنگ کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ روس نے امریکا کی جمہوریت کو زک پہنچانے کے لیے ہیکنگ کی تھی اور روس نے شام میں شہریوں کو نشانہ بنا کر جنگ کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ جان پومپیو نے کہا کہ روس نے دنیا میں اپنا اثر پھیلانے کے لیے نہایت جارحانہ انداز اختیار کیا ہے اور وہ اس بارے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھیں گے۔ جان پومپیو نے یہ بھی کہا کہ روس نے داعش کا قلع قمع کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ رائے منتخب صدر کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ناٹو کی افادیت پر تشکیک کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ یہ معاہدہ اب ناکارہ ہو چکا ہے اور اس کی شرائط پر دوبارہ غور کریں گے اور صرف اس صورت میں ناٹو کے رکن ملکوں کا دفاع کریں گے جب یہ معاہدے کی شرائط پوری کریں گے۔ لیکن نامزد وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے سماعت کے دوران ناٹو کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ امریکا ناٹو کے رکن ممالک کا دفاع کرے گا۔ ریکس ٹلر سن نے جو امریکی تیل کمپنی ایکسن موبل کے سربراہ رہ چکے ہیں اور جو صدر پیوتن کے قریبی دوست ہیں اور جنہیں صدر پیوتن نے روس کا اعلی اعزاز، آرڈر آف فرینڈ شپ دیا تھا، البتہ اس سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا کہ کیا وہ روسی صدر پیوتن کو جنگی جرایم کو مجرم گردانتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ اصطلاح استعمال نہیں کریں گے۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے واضح انداز سے کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا منسوخ کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اول فوقیت ہوگی کہ ایران کے ساتھ اس ’’تباہ کن‘‘ سمجھوتا کو فی الفور منسوخ کردیا جائے۔ ان کے نامزد وزیر خارجہ ٹلر سن نے البتہ سماعت کے دوران کہا کہ وہ اس سمجھوتے کو منسوخ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
ٹرمپ کے نامزد وزیر دفاع جنرل میٹس نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ گو ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا ناقص ہے لیکن وہ اسے منسوخ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ امریکا کے مفاد میں ہوگا اگر جاپان اور جنوبی کوریا بھی جوہری اسلحہ تیار کریں۔ لیکن ٹلر سن نے کہا کہ وہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کیوں کہ ان کی وزارت کا اہم رول ہوگا کہ جوہری اسلحہ کے پھیلاو کو روکا جائے۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم میں سب سے زیادہ زور اس پر دیا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کے داخلہ کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر فصیل تعمیر کریں گے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مکسیکو سے لوگ منشیات لاتے ہیں، یہ جرایم لاتے ہیں اور یہ زنا کار ہیں۔ ٹرمپ کے نامزد وزیر خارجہ ٹلر سن نے کہا کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ میکسیکو ہمارا پڑوسی ہے اور میکسیکو کے لوگ ہمارے پرانے دوست ہیں۔
ہوم لینڈ سیکورٹی کے نامزد وزیر جان کیلی نے رائے ظاہر کی کہ میکسیکو کی سرحد پر فصیل بے سود ثابت ہوگی۔
غرض، اہم مسائل پر ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے نامزد وزیروں کے موقف اور رائے میں شدید اختلاف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کابینہ کے ساتھ جس کے وزیروں کے موقف ٹرمپ سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں، نئے صدر کس طرح حکومت چلا سکیں گے۔ کابینہ کے ان وزیروں کو یا تو اپنے موقف تبدیل کرنے پڑیں گے یا پھر اختلافات کی بنیاد پر استعفوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ کے مستقبل کا دارو مدار، انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کی تحقیقات پر ہوگا جو 2013میں ماسکو میں ٹرمپ کے قیام کے دوران ان کی مبینہ جنسی سرگرمیوں کے بارے میں ہے اور اسی کے ساتھ اس تحقیقات کے نتیجہ پر بھی ٹرمپ کی انتظامیہ کے مستقبل کا دارو مدار ہوگا جو صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے بارے میں ہو رہی ہے۔ محکمہ انصاف ان دونوں روپورٹوں پر غور کر رہا ہے اور توقع ہے کہ اگلے نوے روز میں تحقیقات کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ عام خیال یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے اس وقت شگون اچھے نہیں ہیں۔