پچھلے دنوں ملک کے معروف دانشور شاہنواز فاروقی نے پاکستان میں مارشل لا کیوں لگتا ہے کے عنوان ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہ ’’اس سلسلے میں جرنیلوں کے تصور ذات یا self image کی اہمیت بنیادی ہے۔ ہمارے جرنیلوں کا تصور ذات یہ ہے کہ وہ ایک برتر مخلوق ہیں۔ ان کے پاس زیادہ علم ہے، زیادہ ذہانت ہے، زیادہ تجزیے کی صلاحیت ہے، زیادہ نظم و ضبط ہے، زیادہ حب الوطنی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مسلم دنیا میں جرنیلوں کا یہ تصور ذات آفاقی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مسلم ملکوں میں فوج ایک نو آبادیاتی ادارہ ہے۔ مسلم ملک آزاد ہوئے تو ان کی کوئی اپنی فوج نہیں تھی، انہیں یورپی طاقتوں کی بنائی ہوئی فوج ورثے میں ملی، اس فوج کی تعلیم و تربیت ہم اور وہ کے تصورات کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ اس فوج کے اہل کاروں کے ذہن میں یہ بات ہوتی تھی کہ ہم یورپی آقاؤں کی برتری کی علامت ہیں اور عوام مسلم ہوں یا ہندو ان کے مقابلے میں غلاموں کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘
بھارت مسلم ملک تو نہیں تھا لیکن ہندوؤں کی اکثریت کے مقابلے میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود کروڑوں کی تعداد میں تھے جو کئی مسلم ممالک کی کل آبادی سے بھی زیادہ تھے اور آج بھی اگر بنگلا دیش، پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو یہ بھارت کے ہندوؤں کے برابر ہو جائے گی۔ خیر یہ تو الگ موضوع ہے۔ اصل بات جو بے چینی کا سبب بن رہی ہے وہ یہ کہ برصغیر میں فوج کے اندر ہندو اور مسلم دونوں شامل تھے اور ان دونوں کی تربیت انگریز آقاؤں نے ہی کی ہوگی اس لیے یہ بات کہ ہم یورپی آقاؤں کی برتری کی علامت ہیں اور عوام ان کے مقابلے میں غلاموں کے سوا کچھ بھی نہیں صرف مسلمان فوجیوں کے ذہن میں کیوں رہی اور ہندو جو برصغیر کی فوج میں تھے ان کے ذہن میں برتری کا یہ احساس کیوں قائم نہ رہ سکا اور اسی بحث سے جڑا ہوا ایک سوال یہ ہے کہ برتری کا یہ احساس پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کے اہم اسباب میں سے ایک سبب ہے تو بھارت میں اب تک کیوں مارشل لا نہیں لگ سکا جب کہ اس کی فوج نے بھی وہیں سے تربیت حاصل کی تھی جہاں سے مسلم فوجیوں نے حاصل کی تھی۔
ایک مضبوط تجزیاتی صلاحیت رکھنے والے دانشور ہی اس کا بہتر تجزیہ کر سکتے ہیں ہم جیسے کم علم کے ذہن میں جو نکات آتے ہیں وہ یہ کہ جن سامراجی قوتوں نے برصغیر میں دو متحارب نظریاتی قومیتوں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو ممالک کی شکل میں آزادی دینے کا فیصلہ کیا تو شاید پہلے ہی سے یہ بات طے کرلی گئی ہو گی کہ ان دونوں ممالک میں کس طرز کی حکومتوں کو قائم دائم رکھنا ہے تاکہ وہ ان کے مفادات پورے کرنے کے ساتھ ان کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہ بن سکیں۔ بھارت میں جمہوریت پر اس لیے زور دیا گیا کہ وہاں ہندو اکثریت ہے، اس لیے ہندوستان میں جمہوریت کے نتیجے میں جو بھی پارٹی برسراقتدار آئے گی وہ ہندوؤں کی کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت ہوگی اور مسلمانوں کو کبھی سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے گا۔ پاکستان میں جمہوریت کا راستہ اس لیے روکا گیا کہ اسلام کی شدید محبت کی بنیاد پر چلنے والی تحریک پاکستان کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ملک میں اگر جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا تو کسی مرحلے پر دینی جماعتیں کامیاب ہو جائیں گی، جو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلامی نظام نافذ کرسکتی ہیں۔
تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ معاملہ آج کی صورت حال سے بالکل الٹ ہوتا یعنی ہندوستان میں مارشل لا لگتے رہتے اور پاکستان میں جمہوری تسلسل قائم رہتا تو کیا ہوتا۔ دنیا میں کہیں بھی فوج انقلاب برپا کرتی ہے تو وہ انقلابی (جو اگر ناکام ہو جاتا تو باغی کہلاتا اور اس کی گردن اڑادی جاتی) پہلا کام تو یہ کرتا ہے کہ اپنے جن ساتھیوں کی مدد سے وہ حکومتوں کا تختہ الٹتا ہے سب سے پہلے اپنے ان قریبی ساتھیوں کا صفایا کرتا ہے اس صفائی کے ہر جگہ الگ الگ طریقے ہیں پاکستان میں تو باعزت ریٹائر کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سیاسی میدان جو مضبوط حریف قوتیں ہوتی ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے کوئی خطرہ بن سکتی ہیں ان کی قوتوں کو کمزوریوں میں بدلنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ایوب خان نے آتے ہی اسکندر مرزا کو فارغ کیا سیاسی میدان میں مسلم لیگ کو جیب کی گھڑی بنا لیا اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے اپنے قریبی جرنیلوں کو ایک ایک کرکے ریٹائر کیا اس کے بعد سیاسی میدان میں مضبوط سیاسی جماعتوں کو جو ان کے لیے چیلنج بن سکتی تھیں کمزور کرنے اور ان کے سیاسی اثرات کو محدود کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی علاقائی اور لسانی جماعتوں کو آگے بڑھایا ہر ملک میں جہاں بھی مارشل لا آتا ہے اسی طرح کے ملتے جلتے اقدامات کیے جاتے ہیں، اس لیے اگر بھارت میں فوجی انقلاب آتا تو وہ بڑی سیاسی جماعت کانگریس کو بے اثر کرنے کی کوشش کرتا کہ یہی پارٹی چیلنج بن سکتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا کہ یہ فوجی انقلاب اقلیتی گروہوں جن میں مسلمان اور سکھ دونوں شامل ہیں ان کو اقتدار کے ایوانوں تک موثر رسائی دیتا کہ یہ انقلابی خصلتوں کی اہم خصلت ہے، بڑی مضبوط سیاسی قوت کے مقابلے میں چھوٹی قوتوں کو آگے بڑھاتا ہے جس طرح جنرل ضیاء نے پی پی پی کے اثرات توڑنے کے لیے سندھ کی علاقائی تنظیموں اور لیڈروں کو بالخصوص جی ایم سید وغیر ہ کو اہمیت دینا شروع کیا اور سندھ کے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں جماعت اسلامی کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو دودھ پلاکر مضبوط کیا۔
بھارت میں مارشل لا نہ لگنے کا یہ بیرونی سبب تھا کہ عالمی قوتیں ایسا ہی چاہتی تھیں کہ بھارت میں جمہوریت جاری رہے اور پاکستان میں آمریت۔ لیکن اس کے کچھ اندرونی اسباب بھی ہیں۔ کانگریس مسلم لیگ کے مقابلے میں پرانی اور مضبوط سیاسی جماعت تھی اور ہے ایک زمانے میں اہم مسلم رہنماؤں کی بھی اکثریت اس میں شامل تھی اس کا ہوم ورک قوی تھا یہ مسلم لیگ کی طرح کسی تحریک کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی بلکہ اس نے کئی تحریکوں کو جنم دیا اور تحریک آزادی سمیت برصغیر میں کئی تحریکیں چلائیں اس لیے بھارت میں سیاسی میدان میں مضبوط سیاسی جماعت کانگریس اس طرح کے کسی بھی ممکنہ فوجی انقلاب کے راستے میں اہم رکاوٹ بنی رہی۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کانگریس کی طرح مضبوط تنظیمی قوت سے محروم تھی اس کا ہوم ورک بھی نامکمل تھا اس لیے یہ فوجی انقلاب کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ تیسری اہم وجہ یہ تھی قیام پاکستان کے فوری بعد تحریک پاکستان چلانے والی قیادتیں انتقال کر گئیں یا قتل کردی گئیں قائد اعظم سوا سال بعد وفات پا گئے اور کچھ عرصے بعد لیاقت علی خان بھی قتل کردیے گئے جب کہ بھارت میں اعلیٰ سیاسی قیادتیں آزادی کے کافی عرصے بعد تک حیات رہیں اور حکومتی معاملات میں ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ ایک اور اہم وجہ یہ تھی بھارت کو ایک ملک ملا جب کہ پاکستان کو زمین ملی، بھارت کا انفرا اسٹرکچر اور اس کا مضبوط سیٹ اپ پہلے سے قائم دائم تھا جب کہ پاکستان کو نئے سرے سے سب کچھ بنانا تھا۔ اس کے مقابلے میں اگر پاکستان میں جمہوری تسلسل قائم رہتا تو اسلامی انقلاب کی منزل قریب ہو جاتی، مولانا مودودی نے ملک میں جمہوریت قائم رکھنے کے لیے دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بڑی جاں گسل جدوجہد کی آج جو ملک میں ٹوٹی پھوٹی جمہوریت نظر آتی ہے یہ ان ہی بزرگوں کی کوششوں کا ثمر ہے۔