کوئٹہ:800 فراریوں نے ہتھیار ڈال دیئے

178

مفاہمتی پالیسی کےتحت 800 فراریوں اور شدت پسندوں نے بلوچستان حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کے مطابق ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کا تعلق مختلف شدت پسند تنظیموں سے ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ترجمان حکومت بلوچستان نے یہ بھی اشارہ دیا کہ ‘بڑی تعداد میں مزید فراری قومی دھارے میں شامل ہونے کیلئے تیارہیں۔ انوارالحق کاکڑ کے مطابق ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کی تعداد 800 سے زائد ہے جن میں اہم کمانڈرز بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں ۔ جب ان سے جلا وطن بلوچ رہنما سے کسی قسم کے رابطے کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ‘ناراض اور ناخوش بلوچ پرامن معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے ہتھیار ڈال رہے ہیں اور ہمارے لیے ہر شخص اہم ہے’۔

واضح رہے کہ اب تک شدت پسند تنظیموں سے وابستہ رہنے والے سیکڑوں جنگجو کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، خضدار، مکران اور اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں سیکیورٹی و حکومتی عہدے داروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

جنوری کے آغاز میں کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے اہم کمانڈر بلخ شیر بادینی نے کوئٹہ میں سیکیورٹی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلخ شیر بادینی نے بتایا تھا کہ میں بیرونی حمایت یافتہ عناصر کے دھوکے میں آگیا تھا جو بلوچستان میں دہشت گرد سرگرمیاں کراتے تھے۔

اس سے قبل نومبر 2016 میں صوبہ بلوچستان کے وزیراعلی سیکریٹریٹ میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران 200 سے زائد فراریوں نے تشدد ترک کرکے انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔جن فراریوں نے ہتھیار ڈالے تھے ان میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مختلف علیحدگی پسند گروپ کے اراکین شامل تھے۔ہتھیار ڈالنے والے 75 فراری افغانستان سے آئے تھے اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اب ملک و قوم کی بہتری کے لئے جدوجہد کریں گے۔