امریکا کی سیاست کے پوشیدہ رازوں کے کھوجیوں کا کہنا ہے کہ امریکا کے نئے صدر ٹرمپ ، امریکا کے لیے کیا چاہتے ہیں اور اسے کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ ان کے حامی یہ قطعی نہیں جانتے ، ان کی ریپبلکن پارٹی کو بھی اس کا ادراک نہیں ، حتیٰ کہ خود ٹرمپ بھی یہ نہیں جانتے۔ اس لیے اس وقت وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
ٹرمپ کی سیاسی منزل کیا ہوگی ؟ اس کا ادراک صرف ایک شخص کو ہے ۔ یہ 63سالہ اسٹیفن بینن ہیں جو ٹرمپ کی شہ نشین کے پیچھے بے حد بااثر قوت ہیں ۔ انہیں ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں حکمت عملی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اتنے اہم عہدے پر ان کی تقرری سینیٹ کی تصدیقی سماعت اور منظوری کے بغیر ہوئی ہے اور انہیں قومی سلامتی کاونسل میں مستقل رکن مقرر کر کے مسلح افواج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اورانٹیلی جنس کے ڈائرکٹر پر فوقیت دی گئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ قومی سلامتی کاونسل میں ایک سیاسی مشیر کو شامل کیا گیا ہے ۔ بینن کے ناقدوں کا کہنا ہے کہ انہیں قومی سلامتی کے امور کا کوئی تجربہ نہیں۔ وہ صرف سات سال بحریہ میں خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقد اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ورجینیا کے ایک غریب محنت کش خاندان سے وائٹ ہاؤس تک طویل سفر انہوں نے نہایت سرعت سے طے کیا ہے۔ ہارورڈ بزنس اسکول سے ڈگری حاصل کرنے اور بحریہ میں سروس کے بعد گولڈ مین سیکس میں انہوں نے سرمایہ کاری کا تجربہ حاصل کیا اور اس کے بعد خود اپنا سرمایہ کاری کا بنک قایم کیا،جس کی زیادہ توجہ میڈیا میں سرمایہ کاری پر تھی۔ اسی دوران انہوں نے ہالی ووڈ میں فلمیں بھی بنائیں۔ ان کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے دائیں بازو کے انتہا پسند بیربیٹ آن لائین نیوز کی ملکیت حاصل کر کے ریڈیو اسٹیشن پر اپنا شو شروع کیا۔ اسی ریڈیو شو سے ان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے قربت شروع ہوئی جس میں وہ بڑی باقاعدگی سے ٹرمپ کو مدعو کرتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ اسی زمانے میں ٹرمپ پر، اسٹیفن بینن کے انتہا پسند نظریات کا رنگ چڑھا اور ان نظریات کے فروغ کے لیے ٹرمپ کے دل میں اقتدار کے حصول کی جوت جگی تھی ۔
بینن کو جو لوگ جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے چیف ایگزیکٹیومقرر ہونے سے برسوں پہلے انہیں، جنگوں کی تاریخ ، چھاپا مار جنگوں اور جنگی حربوں کے مطالعے کا جنون تھا ، ہالی ووڈ میں بھی انہوں نے زیادہ تر جنگی فلمیں بنائیں ۔اس بناء پر خطرہ ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کو جنگوں کی جانب دھکیل دیں۔
بینن کے سیاسی فلسفہ کی اساس تین بنیادی عناصر پر ہے۔ اول ۔ مغربی دنیا کی سپر طاقت امریکا کی کامیابی ، سرمایہ داری نظام ، قوم پرستی اور یہودی ،عیسائی اقدار کا اتحاد۔بینن کا کہنا ہے کہ امریکا کی ترقی اور استحکام کے لیے یہودی اور عیسائی اقدار کا فروغ لازمی ہے اور اس مقصد کے لیے نظریاتی یک جہتی بنیادی ضرورت ہے اور ان لوگوں کو اس معاشرے میں داخلے سے روکا جائے جو یہودی، عیسائی اقدار پر یقین نہیں رکھتے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے شامی پناہ گزینوں اور سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی کا جو حکم جاری کیا ہے اس کے پس پشت بینن کا یہی عقیدہ نمایاں ہے۔ بینن کا کہنا ہے کہ امریکا اپنی تاریخ کے چوتھے بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’امریکا انقلاب سے گزر چکا ہے ۔ اسے خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، عظیم کساد بازاری اور دوسری عالم گیر جنگ کے دور سے گزرا ہے اور اب چوتھے بحران کا اسے سامنا ہے۔ بینن کی رائے ہے کہ دوسری عالم گیر جنگ سے قبل یورپ کو فسطایت سے زیادہ خطر ناک قوت اسلام سے خطرہ تھا اور ان کی پیشن گوئی ہے کہ یہودی اور عیسائی مغرب اور بقول ان کے اسلامی فسطایت کے درمیان عالمی بقا کی جنگ ہوگی۔ نو مہینے قبل اسٹیفن بینن نے کہا تھا کہ اگلے دس برس میں، امریکا اور چین کے درمیان جنوبی چین کے سمندر کے جزیروں پر جنگ ہوگی ۔ اسی کے ساتھ ان کا کہنا ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ میں ملوث ہوگا۔
بلا شبہ صدر ٹرمپ کے سیاسی گرو بینن کے نظریے کے مطابق نئی انتظامیہ کی پالیسی اور اقدامات سامنے آرہے ہیں۔ شامی پناہ گزینوں اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے بعد اب ایران سے معرکہ آرائی کا آغاز ہوگیا ہے۔دو روز پہلے نیشنل سیکوریٹی کے مشیر مائیکل فلن نے ایران کو میزائل کے تجربے پر خبردار کیا تھا اور ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے ، پھر ایک روز بعد مائیکل فلن نے ایران کے مبینہ میزائل پروگرام پر ایران کی کئی درجن کمپنیوں اور تیرہ افراد پر پابندیوں کا اعلان کیا اور خبردار کیا کہ ایران کے خلاف مزید اقدامات کیے جائیں گے۔اس بات کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کا اگلا اقدام ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی منسوخی کا ہو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں کہا جارہا ہے کہ ایران کے لیے جوہری پروگرام کی راہیں کھل جائیں گی۔
اس سے پہلے ایوان نمائندگان میں ایک قرار داد پیش کی گئی تھی جس میں ایران کو جوہری اسلحہ کی تیاری سے روکنے کے لیے صدر کو ایران کے خلاف جنگ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ حالاں کہ اس سے پہلے امریکا کی 16 انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تجزیے میں کہا گیا تھا کہ ایران ، جوہری اسلحہ کی تیاری کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ اس کے باوجود ری پبلکن اراکین نے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے بارے میں صدر کو اختیار دیا ہے ۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ ایوان نمایندگان کی اس قرار داد کے پیچھے اسٹیفن بینن کا دماغ کام کر رہا ہے ۔