نجی ٹیکسی کمپنیوں کے گرد گھیرا تنگ

70

نجی ٹیکسی کمپنیوں کے گرد گھیرا تنگ
’اوبر‘ اور ’کریم‘ پر پابندی کی افواہوں سے شہری مایوس‘ سوشل میڈیا پر شدید ردعمل‘ حکومتی اقدامات پر سخت تنقید
عوام کو بہتر سفری سہولیات نہیں دے سکے‘ وزیر ٹرانسپورٹ کا اعتراف۔ نجی اداروں کو حکومتی دائرہ کار میں آنا ہوگا‘ ناصر حسین شاہ
کراچی میں چندروز سے پرائیویٹ ٹیکسی چلانے والی 2 کمپنیاں ’اوبر ‘ اور ’کریم ‘ شہ سرخیوں میں ہیں۔ ان کمپنیوں پر الزام ہے کہ یہ غیر رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں ، نہ ان کے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ ہے ا ور نہ ہی کوئی روٹ پرمٹ۔ کمپنیاں پرائیویٹ گاڑیوں کو کمرشل کرائے پر بغیر سروس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پنجاب حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کراچی میں بھی نجی ٹیکسی سروس کے خلاف کارروائی کی خبریں سامنے آنے لگیں، ان خبروں میں کچھ اطلاعات ایسی بھی تھیں جن میں کہا جارہا تھا کہ ’کریم ‘کی سروس ایپ بند کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو خط ارسال کیا جارہا ہے۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ سندھ طحہ فاروقی نے بتایا کہ’ کریم‘ کی انتظامیہ کو رجسٹریشن کے لیے 5 خط لکھے گئے تھے لیکن کمپنی کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ‘اوبر‘ اور ’کریم‘ پر کوئی پابندی نہیں تاہم انہیں سرکاری دائرہ کار میں لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد حکومت کو ایسی کسی سروس پر اعتراض نہیں ہو گا۔ سندھ کے وزیرٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت کراچی سمیت سندھ بھر میں کہیں بھی ’اوبر ‘یا ’کریم‘ کو بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، ان کمپنیز کو سرکاری دائرہ کار میں لانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے رہے ہیں۔ناصر حسین شاہ نے اعتراف کیا کہ لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے ہم اچھی سروس مہیانہیں کرسکے، شہر میں ایسی بسیں چل رہی ہیں جنھیں سڑک پرچلنے کی اجا زت نہیں ہو نی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی حالت بہتر نہیں ، موبائل ایپ ٹیکسی اچھی سروس ہے، سندھ حکومت نے نجی ٹیکسی سروس پرکوئی پابندی نہیں لگائی تاہم قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ پرائیویٹ گاڑی کمرشل مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے اس پر ایکسائز ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گے، کارروائی سٹی اورانٹرسٹی بس آنے کے بعدکریں گے، نوٹسزدے چکے ہیں،کریم سروس کی 4 گاڑیاں کسی اوروجہ سے پکڑی گئی ہیں۔ تاہم مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ نہ صرف ٹریفک پولیس نے اپنے طور پر ہی ٹیکسیوں کو جگہ جگہ روکنے، ان کی تلاشی لینے ، عملے کو ڈرانے دھمکانے اور ان سے پیسے وصول کرنا شروع کر دیے ہیں بلکہ خبریں پھیلنے کے بعد سے صارفین نے بھی ان ٹیکسیوں کو استعمال کرنا کم کردیا ہے۔اس بات کی تصدیق کمپنی کی جانب سے تمام افراد کو ایس ایم ایس سروس کے ذریعے دیا جانے والا یہ پیغام ہے جس میں کہا گیا ہے سروس بلاتعطل جاری ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آن لائن یا ایپ کے ذریعے چلنے والے کاروبار پر لوگوں کو اعتماد آتے بہت وقت لگے گا کیوں کہ یہاں عموماً لوگ اس کے عادی نہیں ہیں۔ تعلیم کا معیار بھی کچھ اچھا نہیں جبکہ بدعنوانی کے خیالات سے بھی لوگ انہیں استعمال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔’ اوبر’ اور’ کریم ‘بھی موبائل ایپ کے ذریعے استعمال میں لائی جاتی ہیں جبکہ اس کے کرائے کی رسید بھی فون پر ہی موصول ہوتی ہے اس لیے لوگ محدود پیمانے پر ان سروسز کو استعمال میں لارہے ہیں۔ چونکہ کیب سروسز کی گاڑیاں نجی مالکان کی ہوتی ہیں اس لیے ان پر کسی قسم کا کوئی لوگو یا شناخت نہیں ہوتی۔ کمپنیاں نئی اور چم چماتی گاڑیاں مہنگے پیسوں میں عام لوگوں سے لے کر استعمال کر رہی ہیں لہٰذا عدم اطمینان اور شہر کے مخدوش امن و امان والے ماحول میں ان سے کسی حد تک خوفزدہ ہیں۔ان سروسز کے باقاعدہ کوئی اسٹینڈ نہیں ہوتے۔ نما ئندہ جسارت نے گز شتہ روز نجی ٹیکسی کمپنیوں کے دفاتر کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کے ان کے دفاتر بھی شہر میں ایک دو ہی ہیں، پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس میں واقع دفاتر پر سیکورٹی کا سخت پہرا تھا۔ دفاتر کی عمارت پر کہیں بھی بورڈ اور علامت نہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ فلاں کمپنی کا آفس ہے۔ صرف پرانے علاقہ مکین ہی ان دفاتر کا پتا جانتے ہیں۔ عام شہریوں کو ان کا پتا بھی نہیں۔یہی ’خاموشی ‘اور ’لاعلمی ‘ان کمپنیوں کو سرکاری دائرہ کار میں لانے کا ایک بڑا سبب بن رہی ہے۔