بادشاہت کے زمانے میں بادشاہوں کا مفاد ہی قوم کا مفاد ہوتا تھا اور ان کی رائے ہی قانون کہلاتی تھی۔ لیکن اقبال نے کہا ہے:
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
اقبال کے اس شعر کا مفہوم عیاں ہے۔ مغرب کا جمہوری نظام بھی بادشاہت ہی کی ایک شکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بادشاہت میں بھی ایک فرد یا ایک خاندان اہم ہوتا تھا اور جمہوری نظام میں بھی اکثر اہمیت فرد یا خاندان ہی کی ہوتی ہے۔ جمہوریت کو بادشاہت سے زیادہ ہی جدا کرنا مقصود ہو تو کہا جائے گا کہ بادشاہت میں فرد یا خاندان اہم تھا اور جمہوریت میں ’’طبقہ‘‘ اہم ہے۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے مگر اُس کی جمہوریت پر کارپوریٹ کلچر کا اتنا گہرا اثر ہے کہ کارپوریٹ کلچر کے بغیر امریکہ کی جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 1960ء کی دہائی میں سوویت یونین نے کیوبا میں میزائل نصب کردیے جس سے ایک بڑا بحران پیدا ہوگیا اور کہا گیا کہ کیوبا امریکہ کا پڑوسی ہے اور میزائلوں کی تنصیب سے امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اُس زمانے میں امریکہ کے منصبِ صدارت پر جان ایف کینیڈی فائز تھے۔ کینیڈی ذہین اور عوام میں مقبول تھے، چنانچہ انہوں نے بڑے تدبر کے ساتھ صورت حال کو سنبھالا۔ ورنہ امریکہ کے جرنیل ہر دوسرے دن کینیڈی کو مشورہ دیتے تھے کہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ امریکہ کیوبا پر ایٹم بم دے مارے۔ لیکن کینیڈی جرنیلوں کی باتوں میں نہ آئے اور امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ لیکن کینیڈی نے اس مرحلے پر ’’قومی مفاد‘‘ کو جس طرح “Define” کیا اس کی انہیں بڑی قیمت چکانی پڑی۔ امریکہ کے جرنیلوں نے جلد ہی کینیڈی کو قتل کرادیا۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکہ کے صدر جارج بش نے جھوٹی اطلاعات کو قومی مفاد باور کراتے ہوئے عراق کے خلاف ایک ہولناک جارحیت ایجاد کی۔ یہاں تک کہ بگرام ایئربیس، ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانے بھی امریکہ کا قومی مفاد قرار پائے۔ اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے صدر منتخب ہونے سے قبل اعلان کیا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو بند کردیں گے۔ لیکن سی آئی اے اور پینٹاگون گوانتاناموبے کو امریکہ کا قومی مفاد تصور کرتے ہیں، چنانچہ اوباما 8 سال تک امریکہ کے صدر رہے مگر وہ گوانتاناموبے کو بند نہ کرا سکے۔
اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو قومی مفاد کا تعین کسی قوم کے مذہب، تہذیب، تاریخ اور اخلاقی تصورات سے ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ قومی مفاد کا تعین صرف ’’طاقت‘‘ سے ہورہا ہے۔ طاقت کا مرکز امریکہ کے صدر کے ہاتھ میں ہے تو قومی مفاد کا تعین وہ کررہا ہے۔ ’’قومی مفاد‘‘ سی آئی اے، پینٹاگون اور کارپوریشنوں کے ہاتھ میں ہے تو طاقت کا تعین وہ کررہی ہیں۔ لیکن یہ باتیں ہمیں کیوں یاد آئیں؟
اس کی وجہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی نظربندی کا فیصلہ ’’قومی مفاد‘‘ میں کیا گیا ہے۔ جنرل آصف غفور نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ اقدام ایک “Policy Decision” ہے اور یہ فیصلہ ریاستی ’’اداروں‘‘ نے قومی مفاد میں کیا ہے۔ ہماری قومی تاریخ میں جرنیلوں کو اس امر کی وضاحت کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی کہ ملک میں جو بڑے فیصلے ہورہے ہیں ان کی پشت پر کون موجود ہے۔ لیکن قومی زندگی کے اس مرحلے پر آئی ایس پی آر کے سربراہ کو قومی مفاد کی مالا جپنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے تو اس کا مفہوم عیاں ہے۔ جنرل آصف غفور نے اس بیان میں بنیادی بات یہ کہی ہے کہ اگرچہ حافظ سعید کی نظربندی کا فیصلہ میاں نوازشریف نے کیا ہے، تاہم اس سلسلے میں فوج پوری طرح میاں صاحب کے ساتھ ہے۔ جنرل آصف غفور نے اسی لیے فیصلے کے سلسلے میں ’’ادارے‘‘ کے بجائے ’’اداروں‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ میاں نوازشریف اور جنرل باجوہ کو ’’میاں نوازشریف اور جنرل باجوہ بھائی بھائی‘‘ کی یہ صورت حال مبارک ہو، لیکن یہاں ہماری دلچسپی کا محور بھائی بھائی کی یہ صورت حال نہیں، بلکہ یہ سوال ہے کہ ہماری قومی تاریخ میں قومی مفاد کا تعین کیسے ہوتا رہا ہے؟
تحریکِ پاکستان کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان اول و آخر ایک عوامی جدوجہد تھی اور اس سلسلے میں جرنیلوں یا فوج کا کوئی کردار نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے، اُس وقت کوئی فوج موجود ہی نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود جرنیلوں نے ہماری قومی زندگی کو پہلے ہی مرحلے میں اپنی گرفت میں لے لیا۔ جنرل ایوب نے ہماری تاریخ کا پہلا مارشل لا 1958ء میں قوم پر مسلط کیا، لیکن American Papers کے ذریعے یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکہ کے ساتھ خفیہ رابطے استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ خفیہ خطوط کے ذریعے امریکہ سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت پاکستان کو تباہ کررہی ہے اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ تاریخ کے اس مرحلے کو دیکھا جائے تو جنرل ایوب تنِ تنہا پاکستان کے قومی مفاد کا تعین کررہے تھے۔ بلاشبہ اس سلسلے میں انہیں ساتھی جرنیلوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی، مگر چند جرنیلوں کو اس بات کا حق کہاں سے حاصل ہوا کہ وہ پاکستان کے قومی مفاد کا تعین کریں؟ بلاشبہ جنرل ایوب کے زمانے میں ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار تھا۔ لیکن سیاسی عدم استحکام قوموں کی زندگی کا عام تجربہ ہے اور اس تجربے سے بھی قومیں بہت کچھ سیکھتی ہیں، لیکن جنرل ایوب اور اُن کے ساتھیوں نے سیاسی عدم استحکام کو جواز بناکر ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کردیا۔ اس اقدام سے معلوم ہوا کہ جنرل ایوب کے نزدیک مارشل لا ہی قومی مفاد تھا۔ تاریخ کے اس مرحلے پر قومی مفاد کی تعریف متعین کرتے ہوئے جنرل ایوب نے نہ مذہب کی طرف دیکھا، نہ تہذیب کی طرف، اور نہ قومی تاریخ کی طرف۔ اُن کے پاس طاقت تھی، اور انہوں نے طاقت ہی کو مذہب، تہذیب، تاریخ اور اخلاقیات کا متبادل بنادیا۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی اور اخلاقیات، سیاسی بندوبست اور ’’قومی مفاد‘‘ کا تقاضا تھا کہ اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگادیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے اراکین کو دھمکی دی کہ اگر کسی نے ڈھاکا میں طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ جنرل یحییٰ خان جو تین سال سے قوم کے ’’گاڈفادر‘‘ بنے ہوئے تھے اُن کا فرض تھا کہ وہ اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کراتے اور بھٹو صاحب کو الٹے سیدھے نعرے نہ لگانے دیتے۔ مگر All-Powerful جنرل یحییٰ اچانک ’’عضوِِ معطل‘‘ بن کر رہ گئے اور انہوں نے بالآخر اکثریتی جماعت کے خلاف فوجی آپریشن کو ’’قومی مفاد‘‘ قرار دے دیا۔ یہاں تک کہ ملک ٹوٹ گیا۔ یہ تو اچھا ہی ہوا کہ اس سانحے پر پاکستان کا حکمران طبقہ خاموش رہا، ورنہ پاکستان کا حکمران طبقہ اتنا رکیک تھا کہ اس کا کوئی رکن اٹھ کر کہہ سکتا تھا کہ پاکستان کا ٹوٹنا بھی قومی مفاد تھا۔ آخر معروف شاعر ن۔ م۔ راشد نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر یہ گھٹیا تبصرہ کیا ہے کہ اب پاکستان ’’آہنگ‘‘ میں آگیا۔ یعنی جب تک مشرقی پاکستان ساتھ تھا پاکستان ’’بدآہنگ‘‘ تھا۔ اللہ اکبر۔ آخر ضلالت اور رکاکت کی کوئی حد بھی ہوتی ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کی دہائی میں اچانک صنعتوں اور بڑے بڑے اداروں کو قومیالیا۔ بلاشبہ اُس وقت سوشلزم موجود تھا اور اس کے زیراثر Nationalization کا تصور موجود تھا، لیکن اتنے بڑے فیصلے سے قبل ضرورت اس بات کی تھی کہ اس حوالے سے قومی سطح پر بحث و مباحثہ کرا لیا جاتا۔ لیکن بھٹو صاحب نے اس پر قومی مکالمے کی راہ ہموار نہ کی، یہاں تک کہ انہوں نے قومی اسمبلی کو بھی اس قابل نہ سمجھا کہ وہ اس مسئلے پر وہیں کوئی بحث کرا لیتے۔ بھٹو صاحب کے پاس طاقت تھی اور انہوں نے طاقت کو ’’عقل‘‘ سمجھتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کر ڈالا جس نے ملک کی معیشت اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب کیے۔
جس طرح بھٹو صاحب کی قومیانے کی پالیسی اندھادھند تھی اسی طرح میاں صاحب کی نجکاری بھی اندھا دھند ہے۔ میاں نوازشریف کے پاس عقل نام کی چیز تو ہے نہیں، یہاں تک کہ وہ عقل ادھار مانگنے کے بھی قائل نہیں، چنانچہ ان کی نجکاری لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کرچکی ہے اور کتنے ہی ادارے کوڑیوں کے مول فروخت کیے جاچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں صاحب چین سے بہت متاثر ہیں اور وہ پاک چین دوستی کے ترانے بھی گاتے رہتے ہیں، مگر ان کو اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ چین کی ساری ترقی ’’نجکاری سے پاک‘‘ اداروں کی مرہونِ منت ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ حکمران اہل ہوں تو ہر ادارے کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے، چنانچہ نجکاری کوئی ’’ناگزیر‘‘ شے نہیں۔ لیکن میاں نوازشریف تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے غلام ہیں۔ انہیں ان اداروں سے جو حکم مل جاتا ہے، وہی ’’قومی مفاد‘‘ بن جاتا ہے۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے پوری بے شرمی کے ساتھ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا۔ لیکن انہوں نے پورا ملک امریکہ کے حوالے کرتے ہوئے کسی اور سے کیا، کورکمانڈرز تک سے مشورہ ضروری نہ سمجھا۔ جنرل پرویزمشرف کے پاس طاقت تھی، اور قومی زندگی کے اس اہم مرحلے پر انہوں نے جو فیصلہ کیا وہ ہمارے مذہب، تہذیب، تاریخ اور حقیقی قومی مفاد کی روح کی ضد تھا، لیکن جنرل پرویزمشرف کا فیصلہ ہی سکہ رائج الوقت کہلایا۔ بلاشبہ جنرل پرویزمشرف ہر وقت ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘۔۔۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کرتے رہتے تھے۔ لیکن سب سے پہلے پاکستان کا مطلب ’’سب سے پہلے جنرل پرویزمشرف‘‘ یا ’’سب سے پہلے جرنیل‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف بہت جلد جنرل ’’بشرف‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ مثل مشہور ہے ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔ جنرل پرویزمشرف امریکہ کے صدر ’’بش‘‘ کے آلۂ کار تھے اس لیے ’’بشرف‘‘ کہلائے۔ وہ اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنے حقیقی قومی مفاد کے ساتھ ہوتے تو ان کا نام کون بگاڑ سکتا تھا۔۔۔!
nn