اسلام دشمنی میں کون آگے؟ ٹرمپ یا یورپ

206

امریکا کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے جب امریکا میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی کانعرہ لگایا تھا اور کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کے مسلمانوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے، ان کی رجسٹری قائم کی جائے، مسلمانوں کی شناخت کے لیے شناختی کارڈ کیے جائیں اور کسی مسجد میں ذرا بھی گڑبڑ ہوئی توتمام مساجد بند کردی جائیں۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے ان اعلانات کو محض انتخابی نعرے قرار دیا گیا تھااور کہا گیا تھا کہ ان کی بنیاد پر جیت محال ہے۔
لیکن جب شامی پناہ گزینوں اور سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلہ پر پابندی کے بارے میں صدر ٹرمپ کے انتظامی حکم نامہ پر پوری دنیا میں تہلکہ مچا تو ٹرمپ کی اسلام دشمنی کو حقیقت کے روپ میں دیکھا گیا۔ بہت کم لوگوں کو اس کا احساس تھا کہ ٹرمپ نے اسلام دشمن اقدام یہ جانتے ہوئے اٹھایا ہے کہ امریکا کے 49فی صد عوام مسلمانوں کے خلاف جذبات رکھتے ہیں اور وہ مسلم امیگریشن کے خلاف ہیں۔ ٹرمپ کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان کی ری پبلیکن پارٹی میں تین چوتھائی اراکین کی یہ رائے ہے کہ اسلام، امریکی اقدار کے برخلاف ہے۔ ٹرمپ کو اس بنا پر بھی اسلام دشمنی میں شہے مل رہی ہے کہ امریکا میں جہادیوں کے خلاف اتحاد میں شامل تنظیمیں، جو گزشتہ دس سال سے اسلام دشمنی کوفروغ دے رہی تھیں، ان کی حمایت کرتی ہیں۔ ان تنظیموں میں سے بہت سی تنظیمیں، تشدد پسند جہادیوں اور عام امن پسند مسلمانوں میں فرق سے قطعی لاعلم ہیں اور ان تنظیموں میں شامل افراد کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ عیسائی، مغربی کلچر اور شناخت کو مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ اسلام دشمن ان تنظیموں میں سب سے نمایاں، اینٹی مسلم سینٹر فار سیکورٹی پالیسی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں نے امریکا اور مغرب کو فتح کرنے کے لیے ماؤ نواز انداز کا ہمہ گیر شورش کا منصوبہ بنایا ہے۔اس تنظیم کے تین لاکھ اراکین ہیں اور پورے امریکا میں اس کی ایک ہزار سے زیادہ شاخیں ہیں۔
ٹرمپ کی اسلام دشمنی امریکا کے ساحلوں تک محدود نہیں بلکہ بحر اٹلانٹک کے پار، یورپ بھی اسلام دشمنی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ درحقیقت، ٹرمپ کے ظہور سے بہت پہلے سے یورپ کو اسلام دشمنی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ شام کے پناہ گزینوں کے سیلاب نے اسلام دشمنی کو اور زیادہ فروغ دیا ہے۔ گزشتہ سال پیو ریسرچ سینٹر کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ، اٹلی میں 69فی صد عوام اسلام کے خلاف رائے رکھتے ہیں۔ ہنگری میں 72فی صد عوام، پولینڈ میں 71فی صد، برطانیہ میں 9فی صد اور فرانس میں 5فی صد عوام اسلام کے خلاف ہیں۔ جرمنی میں نسل پرست تحریک پگیڈا اسلام دشمنی میں پیش پیش ہے، جس نے بڑی تیزی سے اپنے قدم جمائے ہیں۔ 2014میں پگیڈا کو سات ریاستوں میں یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں 7 فی صد ووٹ ملے تھے اور گزشتہ سال جرمنی کی سولہ ریا ستی پارلیمنٹوں میں سے دس میں اسے نمایاں نمائندگی حاصل ہوئی ہے۔
ادھر ہالینڈ میں اسلام دشمنی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ گریٹ وایلڈرس کی قیادت میں اسلام دشمن پارٹی PVVکے اس سال مارچ میں ہونے والے عام انتخابات میں جیت کے قوی امکانات ہیں۔ گریٹ وایلڈرس، مساجد بند کرنے اور قران پاک پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ہالینڈ کے آئین میں ترمیم کر کے مسلم ممالک سے امیگریشن پر مکمل پابندی عائد کردی جائے اور ہالینڈ میں آباد مسلمانوں کی شہریت منسوخ کر کے ان کو ملک بدر کر دیاجائے۔ گریٹ وایلڈرس نے مسلمانوں کے خلاف انٹر نیشنل فریڈم الائنس کے نام سے عالمی اتحاد منظم کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں فرانس، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا اور امریکا شامل ہوں گے۔
سوئٹزرلینڈ میں گزشتہ سال، برقع اور نقاب پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ 2009میں ایک ریفرنڈم میں مساجد کے میناروں کی تعمیر ممنوع قرار دینے کافیصلہ کیا گیا تھا۔ آسٹریا میں اسلام دشمنی کی لہر کے نتیجے میں پچھلے سال انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کو 46فی صد ووٹ ملے تھے۔
فرانس میں اس سال صدارتی انتخاب میں نسل پرست تنظیم نیشنل فرنٹ کی میری لے پین کی کامیابی کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ پچھلے ایک عرصہ سے فرانس میں دہشت گرد حملوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی ہے اور اسی وجہ سے میری لے پین کی جیت کے قوی امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ برطانیہ میں اسلام دشمنی میں انگلش ڈیفنس لیگ پیش پیش رہی ہے۔ اس پارٹی کے امریکا اور یورپ میں مسلم دشمن تنظیموں سے گہرے روابط ہیں۔ پچھلے ایک عرصہ سے برطانیہ میں لبرٹی گریٹ برٹن تیزی سے اسلام دشمن تنظیم کی حیثیت سے ابھری ہے اور UKIP اپنی نسل پرست پالیسی کی بنا پر مسلمانوں اوراسلام کی مخالف جماعت مانی جاتی ہے۔ ویسے اسلام دشمن تنظیموں سے کہیں زیادہ برطانوی میڈیا اسلام دشمنی میں پیش پیش ہے۔
یورپ کے عوام کے ایک تازہ سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اکثریت، مسلم تارکین وطن کے داخلہ کے سخت خلاف ہے اور ٹرمپ کی پالیسی کی حامی ہے۔ برطانیہ کے بین الاقوامی امور کے ادارے چیتھم ہاوس کے سروے میں یورپ کے دس ممالک میں دس ہزار افراد سے مسلم امیگریشن کے بارے میں سوالات کیے گئے تھے۔ 55فی صد نے واضح طور پر رائے ظاہر کی کہ مسلم ممالک سے تارکین وطن کا داخلہ بند کردینا چاہیے۔ 25فی صد نے نہ تو اتفاق کیا اور نہ اختلاف کیا اور 20فی صد نے مسلم تارکین وطن کے داخلی پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔
بلا شبہ ٹرمپ کی اسلام دشمن پالیسی سے اٹلانٹک کے پار یورپ میں اسلام دشمن تنظیموں کو زبردست تقویت پہنچے گی اور کوئی تعجب نہیں کہ امریکا اور یورپ کے درمیان اسلام دشمنی کا وسیع تر اتحاد قائم ہو جو نہ صرف امریکا کے33لاکھ مسلمانوں بلکہ یورپ کے 4کروڑ 40لاکھ مسلمانوں کے مستقبل کے لیے بھی سنگین خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔