بریگزٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آ گیا،ٹونی بلیئر

210

ٹونی بلیئر نے برطانوی عوام کو یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ذہن تبدیل کرنے کے لیے مائل کرنے کو اپنا مشن قرار دیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق سابق برطانوی وزیرِ اعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے ریفرینڈم میں ‘بریگزٹ کی شرائط کے بارے میں معلومات کے بغیر’ ووٹ دیا تھا۔انھوں نے کہا کہ وہ کھائی میں گرنے سے بچنے کا راستہ ڈھونڈنے کے لیے حمایت اکٹھی کر رہے ہیں۔’تاہم سابق وزیر ڈنکن سمتھ نے کہا کہ بلیئر کا بیان متکبرانہ اور غیرجمہوری ہے جبکہ ایوانِ وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ وہ بریگزٹ پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔

وزیرِ اعظم ٹریزا مے مارچ کے اختتام تک بریگزٹ کے بارے میں مذاکرات شروع کرنے والی ہیں۔ گذشتہ ہفتے دارالعوام نے اس اقدام کی حمایت کی تھی۔ٹونی بلیئر 1997 سے 2007 تک برطانیہ کے وزیرِ اعظم رہے ہیں۔انھوں نے ‘اوپن بریٹن’ نامی تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا چیلنج یہ ہے کہ ہم اس فیصلے کی اصل قیمت سامنے لائیں اور بتائیں کہ یہ کیسے ناکافی علم پر مبنی تھا، جو اب باقاعدہ علم بن جائے گا اور اس بات کا حساب لگانا آسان ہو گا کہ اس سے ملک اور اس کے شہریوں کو کیا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

ہم اس گڑھے میں گرنے سے بچنے کا راستہ ڈھونڈنے کے لیے حمایت اکٹھی کرنا چاہتے ہیں۔’بلیئر کہتے ہیں کہ وہ جون میں ہونے والے ریفرینڈم کے نتائج قبول کرتے ہیں لیکن وہ تجویز کرتے ہیں کہ اب ‘جب ہمیں واضح طور پر پتہ چل گیا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں’ تو ہمیں بریگزٹ کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔

ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ برطانوی عوام نے اپنا موقف 23 جون کو بڑے واضح انداز میں پیش کر دیا ہے اور اب ‘کوئی دوسرا ریفرینڈم نہیں ہو گا۔’اس سے قبل بلیئر نے کہا تھا کہ جن ایک کروڑ 60 لاکھ لوگوں نے بریگزٹ کے خلاف ووٹ دیا تھا انھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔