بلوچستان میں دوسالوں میں چھ ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے،رپورٹ

262

نیشنل ایکشن پلان کے تحت  صوبے بلوچستان میں گزشتہ دو سال کے دوران سکیورٹی فورسز نے چھ ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے، جس میں سیکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔

یہ بات بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری اعدادوشمار میں بتائی گئی جس کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت دو سال کے دوران بدامنی کے شکار صوبے کے شمالی ، جنوبی اور مشرقی اضلاع میں تیرہ سو انسٹھ ، کومبنگ اور خفیہ معلومات کی بنیاد پر پانچ ہزار چھ سو چالیس ، کارروائیاں کی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق ان کارروائیوں میں پانچ سو باون دہشت گرد ہلاک کئے گئے، تاہم ان دہشت گردوں کی کسی تنظیم سے تعلق کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ آپریشن کے دوران تئیس ہزار آٹھ سو پانچ جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی دعوی کیا گیا۔

ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ صوبے میں دو سالوں کے دوران اغوا برائے تاوان کی سینتیس وارداتیں ہوئیں تاہم ان وارداتوں میں کسی کی بازیابی کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، یہ امر قابل ذ کر ہے کہ بلوچستان میں کئی سال تک اغوا برائے تاوان کی سیکڑوں وارداتیں ہوئیں۔

پولیس حکام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ صوبے میں ستر سے زائد گروہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ گزشتہ سال ایک صوبائی وزیر سردار مصطفیٰ ترین کے بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا جو چند ماہ بعد بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد چھوڑ دئیے گئے تھے۔

پولیس حکام کا دعوی ہے کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والے گروہوں کے خلاف کارروائی کر کے ان کو اب ختم کردیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ کی طرف سے گزشتہ دو سالوں کے دوران لسانی و مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کے بائیس واقعات کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے لیکن ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال پاکستان کا یہ جنوب مغربی صوبہ گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے بدامنی کا شکار رہا ہے جہاں ایک جانب صوبے کے قدرتی وسائل اور ساحل پر اختیار کے لئے قوم پرست بلوچ کالعدم عسکری تنظیمیں قومی تنصیبات، سکیورٹی اداروں، مسافر ٹرینوں اور دوسرے صوبوں سے بلوچستان آنے والے شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں وہاں فرقہ ورانہ بنیادوں پر کارروائیاں کرنے والی بعض کالعدم تنظیمیں شیعہ اور ہزارہ برادری کو نشانہ بنا رہی ہیں جس میں اب تک سیکڑوں لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ صوبے کے حالات خراب کرنے میں بھارت اور افغانستان کے خفیہ ادارے ملوث ہیں جب کہ بھارت اور افغانستان ان الزامات کی تردید کر تے رہے ہیں۔