(کل ہم چلے جائیں گے۔۔۔(محمد عمر احمد خان

86

ارحم بڑا پیارا بچّہ تھا۔ وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کے والد شہر کے امیر ترین تاجر تھے، جو کپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی، ہر طرح کی آسائش میسر تھی۔ قیمتی سے قیمتی لباس، روزانہ پُرلطف روغنی کھانے۔۔۔ وہ جس چیز پر ہاتھ رکھتا، اسے دلادی جاتی۔۔۔ غربت کیا ہوتی ہے، بھوک کسے کہتے ہیں؟ ارحم کو بالکل نہ پتا تھا۔
ارحم کھیل کُود میں نمبر ون تھا، لیکن پڑھنے میں بھی بہت تیز تھا۔ اللہ نے ذہانت کے ساتھ اُسے نہایت حسین وجمیل صورت سے بھی نوازا تھا۔ بہت ساری اچھی چیزوں کے ساتھ دو بُری خاصیتیں البتہ اس میں جمع ہوگئی تھیں۔ ایک تو وہ ضدی بہت تھا اور دوم اتنی ساری آسائشیں پاکر کچھ مغرور ہوچلا تھا۔ اللہ پاک نے اسے دو پیاری پیاری بہنوں سے نوازا تھا، لیکن انہیں ہر وقت تنگ کرتا، کبھی چُٹیا پیچھے سے کھینچ لی، کبھی چلتے چلتے ہلکا سا تھپڑ رسید کردیا، کبھی ان کے حصّے کی چیز پر قبضہ کرلیتا۔ اپنے کزن صائم کو تو وہ روزانہ پیٹتا۔۔۔پھر ضدی ایسا کہ جو چیز پسند آجاتی، وہی مانگتا اور گھر والوں کو وہ چیز ہر صورت دلانی ہی پڑتی۔
ارحم زندگی کے سارے مزے لوٹتے زندگی بسر کررہا تھا۔ اس کا ہر دن عید تھا اور ہرشب، شبِ برات۔ ایک دن وہ جمعہ کو جلدی مسجد چلا گیا۔ اس سے پہلے وہ بالکل آخری وقت میں، جب کہ خطبہ شروع ہوجاتا، جاتا، بلکہ دوڑتا تھا کہ کہیں پہلی رکعت مِس نہ ہوجائے۔
ارحم کو پہلی صف میں جگہ ملی، وہ بیٹھ گیا اور امام صاحب کی تقریر سُننے لگا، جوکہہ رہے تھے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنی پاک کتاب کی سورۃ العنکبوت آیت 64 میں فرماتا ہے: ’’دنیا کی یہ زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور بے شک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے‘‘۔
اسی طرح، فرمانِ رسولؐ ہے: ’’دنیا میں اس طرح رہو، جیسے تم ایک راہ چلتے مسافر ہو یا کسی منزل کے راہی‘‘۔ ایک صحابئ رسولؐ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہا کرتے تھے: ’’جب شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو، اور جب صبح ہوجائے تو شام کا انتظار نہ کرو، اور بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت جانو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو۔۔۔‘‘
ان فرمودات کے بعد امام صاحب فرمانے لگے: جو انسان دنیا کے عیش و عشرت میں مست ہوکر آخرت کو بھول گیا تو موت کے وقت پچھتائے گا کہ کاش میں نے آخرت کے سفر کے لیے کوئی سامان جمع کیا ہوتا۔ اور آپ لوگوں کو پتا ہے، سفرِ آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کیا سامان درکار ہے؟ کیا مال و دولت اور سہولتوں والا سامان۔۔۔؟ نہیں بھائی، ایسا نہیں، صرف نیک اعمال۔ جو لوگ دنیا میں نیک کام کریں گے، وہی آخرت میں اپنے ان کاموں کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کی چین و سکون، عافیت و اطمینان والی زندگی گزاریں گے اور کام یابیوں والی یہی زندگی ہماری جنّت ہوگی۔
یہ سن کر ارحم کا دل لرز گیا، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسے تو آخرت کے سفر میں اپنا کوئی بھی نیک کام یاد نہیں آرہا تھا۔ امام صاحب کا بیان جاری تھا۔ وہ اور بھی کچھ بتارہے تھے، لیکن ارحم کچھ نہیں سن رہا تھا، وہ اب مسجد میں تھا ہی کہاں؟ اللہ تعالی کے سامنے سر جُھکائے شرمسار حالت میں کھڑا رو رہا تھا، گڑگڑارہا تھا:
میرے رب، مجھے معاف کردیجیے۔ میں نے زندگی ہی کی دُنیا کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ اپنے بڑوں کی طرح سمجھتا تھا کہ مجھے ہمیشہ یہیں رہنا ہے، دنیا کی لذتوں، آسائشوں کے مزے لوٹنے ہیں، اور ان تمام چیزوں کے مزے لوٹنے کے دوران میں نے کبھی اپنے بھوکے پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھا۔ روز قورمہ، نان، بریانی کے مزے اُڑاتا رہا۔۔۔ سردیوں میں ایک سے ایک گرم سوئٹر، جرسی اور جیکٹ پہنتا رہا، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ میرے محلّے کے غریب بچّے صرف ایک قمیص میں ساری سردیاں نکال دیتے ہیں۔ میں نے کبھی دل سے اپنے والدین کا کہنا نہیں مانا، کبھی بزرگوں کی خدمت نہیں کی، کبھی کسی کی دُعا نہیں لی۔۔۔ہر چیز میں ضد کی۔۔۔ کس چیز نے مجھے ضدی اور متکبر بنادیا تھا؟ دنیا کے مال و دولت اور آسائشوں نے۔۔۔ اسی میں ڈوب کر میں اپنے رب کو، اس کے غریب بندوں کو اور مرنے کے بعد کی اصل زندگی کو بھول بیٹھا، لیکن اے ربّ العزت اب ایسا نہیں ہوگا، میں ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی حاصل کروں گا اور دنیا میں جب تک رہوں گا، وہ زندگی بسر کروں گا جو میری نہیں بلکہ میرے رب کی پسندیدہ ہوگی، وہ زندگی جو میرے پیارے رسولؐ نے بسر کی۔ اے میرے رب، مجھے قوت دے، مجھے حوصلہ دے، مجھے نیک اعمال کے ساتھ ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی عطا فرما۔۔۔!!
برابر میں کھڑا نمازی ارحم کو جھنجھوڑرہا تھا: کب تک دُعا مانگتے رہو گے، جماعت کھڑی ہوگئی ہے۔۔۔ اور جب نماز ختم ہوئی تو دُعا مانگتے ہوئے ارحم کی آنکھوں کے گرم گرم آنسو اس کا دامن بھگو رہے تھے، وہ رورہا تھا اورکہہ رہا تھا: اے میرے رب ، مجھے معاف فرما، اے میرے رب، مجھے معاف فرما۔۔۔!!
nn