قانونی آبزرویشن دی تو چیئرمین نیب عہدے پر نہیں رہیں گے، سپریم کورٹ

176

سپریم کورٹ  میں پانامالیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہاہے کہ اگر عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھ دیا کہ نیب نے حدیبیہ پیپرملز کیس کے حوالے سے اپنے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو چیئرمین نیب اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے، جبکہ  چیئرمین ایف بی آر اورچیئرمین نیب نے پاناما لیکس معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جبکہ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں، عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اختیار استعمال کیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے روبرو کیس کی سماعت کے دوران  چیئرمین ایف بی آرڈاکٹرمحمد ارشاد ، چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری  نے عدالتی حکم پرپیش ہوکر متعلقہ ریکارڈ پیش کرتے ہوئے عدالتی سوالات کے جواب دیئے ۔

لارجر بنچ اور چیئرمین نیب کے درمیان مکالمے کی تفصیلات:ـ

چیئرمین  ایف بی آر کے دلائل مکمل ہونے پر چیئرمین نیب نے  عدالتی استفسار پر کہاکہ اپنے  موقف پر قائم ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز پرلاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ پر اپیل دائر نہیں کی جائے گی انہوں نے کہا کہ متعلقہ اداروں کی طرف سے کاروائی کے بعد ہی  کوئی کاروائی کر سکتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا بہت بہت شکریہ چیئرمین نیب صاحب، اب آپ کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کمیٹی میں نیب کا موقف تھا کہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں، چیرمین نیب نے کہا ہمارا موقف ہے کہ متعلقہ اداروں کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعیدنے کہا کیا نیب ریگولیٹر اداروں کے کام کا انتظار کرتا ہے؟جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے؟ چیرمین نیب نے کہا نیب کو اس کے قوانین ریگولیٹ کرتے ہیں۔جسٹس کھوسہ نے کہا نیب قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتاہے،یہ ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا؟ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا، پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون؟ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو بینک کی جانب سے تحقیقات کا کہا جاتا ہے۔جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ‘پراسیکیوٹر صاحب اب بس کر دیں، عدالت کو گمراہ نہ کریں، اگر نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے؟’

جسٹس عظمت سعید نے کہا ہزاروں ریفرنس زیر التوا ہیں جن میں بینکوں نے کارروائی کا نہیں کہا تھا۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیرمین کو تعینات کرتا ہے؟ اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا، نیب کا ریگولیٹر کون ہے؟ جسٹس گلزار احمد نے کہا نیب کی ٹیم کو سن کر افسوس ہوا، پراسیکیوٹر جنرل صاحب، اب بس کر دیں، آپ کو عدالت کی معاونت کا کہا تھا آپ نے عدالت کو گمراہ کرنا شروع کر دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو، بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی، نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون؟ ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا ۔چیرمین نیب نے کہا نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا، میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا چیرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی انہیں ہٹا نہیں سکتے۔۔جسٹس عظمت سعید نے کہا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آئے تو نیب انکوائری تو کرتا ہی ہے، جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھتے تو سہی، کسی ایک بندے سے پوچھا کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟؟ کیا کارروائی کریں گے آپ چیئرمین صاحب؟

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ وہ شخص ہے جس نے آپ کو تعینات کیا، نیب غیر سنجیدہ مقدمات میں بھی اپیل دائر کرتا ہے لیکن  اس معاملہ ب میںنیب کے وکلا کہتے ہیں حکام بالا کو مطمئن کرنے کے لیے اپیل کرتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی کا دائرہ اختیار نہیں اب سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کون کرے گا؟’عدالت کے اس سوال پر کہ کیا نیب کا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے؟ چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ‘اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں، تاہم ایک سال گزر گیا اور نیب نے کچھ نہیں کیا، جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھا تو جاتا، کیا کسی ایک بندے سے پوچھا گیا کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا؟ اگر اسرائیلی وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے بلا کر پوچھ سکتے ہیں تو آپ بھی کسی کو بلا لیتے’۔جس کے بعد چیئرمین نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ پاناما لیکس میں نیب قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب نے اپنے اختیار کو دفن کر دیا اور یہ ادارے کے مفلوج ہونے کا آئیڈیل کیس ہے۔جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ٹھپ کردیا، نہ ہی اپیل کی اور نہ ہی ریفری جج کے فیصلے کو پڑھا، عدالت کو نیب کے اپیل نہ کرنے پر تحفظات ہیں۔چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ التوفیق کمپنی کے معاملے پر مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا۔جس پر جسٹس عظمت نے جواب دیا کہ ایف آئی اے پاکستان کا ادارہ ہے اٹلی کا نہیں، کسی ملزم کی چار سو روپے کے کیس میں ضمانت ہو جائے تو نیب فورا اپیل فائل کرتا ہے، اس معاملے میں اربوں کی کرپشن پر اپیل نہیں کی گئی، جب ہائیکورٹ کے جج نے کہا کہ نیب اپیل کر سکتی ہے، تو آپ نے اپیل کیوں نہیں کی؟

چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ پراسیکیوٹر کی مشاورت سے کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں پراسیکیوٹر نے رائے دی کہ اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر اپیل کی جاتی تو نیب کی بدنامی ہوتی اور میاں شریف حیات بھی نہیں تھے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے چیئرمین نیب سے سوال کیا کہ وہ بتائیں ک کسی دبا کے بغیر کیس کھولنے کے حق میں ہیں یا نہیں؟ جس پر چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ وہ اپیل دائر نہ کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہیں۔جس پر جسٹس عظمت نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ سنگین نتائج بھگتنے کیلیے بھی تیار رہیں۔

وفاق کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل:ـ

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر وفاق کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ درخواستوں میں وزیراعظم کی نااہلی مانگی گئی اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حنیف عباسی نے بھی عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے اور کیس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے، درخواستیں کو وارنٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں جن کی سماعت کرنا عدالت کا معمول اور دائرہ اختیار نہیں۔

اٹارنی جنرل کے مطابق ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی اور عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلیمنٹ پر لاگو ہو گا۔جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے، تاہم آرٹیکل 184/3 کا اختیار اگر مشروط ہے تو اٹارنی جنرل اس بارے میں بتائیں، ساتھ ہی ایسی قانونی مثال بھی دیں کہ عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے بھی استعمال نہ کیے ہوں۔

اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اپنا اختیار استعمال کیا ہے اور عدالت ان کی آواز بنی جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتے ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکی ہے اور اچھے جج کبھی اپنے اختیارات پر قدغن نہیں لگاتے۔جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے جبکہ فریقین کا متفق ہونا بھی عدالت کو اختیار نہیں دیتا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ نیب کی جانب سے اپیل دائر نہ کرنے پر درخواست گزار اب تک کیا کر رہے تھے؟ یہ درست ہے کہ غفلت برتنے پر نیب نے عوام کے بنیادی حقوق متاثر کیے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا عدالت کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے؟ اور کیا ہم 1.2 ارب کی بدعنوانی کا معاملہ بغیر حساب کتاب جانے دیں؟جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ سوال ان کے لیے آسان نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ عدالت حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ نہیں کھلوا سکتی؟جس کے جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کی یہ ہی رائے ہے اور اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک بری مثال بن جائے گی۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر فیصلہ کہہ دیا کہ نیب نے اپنے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو پھر چیئرمین نیب اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو آج بروز منگل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی سماعت  ملتوی کردی۔

قبل ازیں سماعت کے آغاز پر ہی شریف خاندان کے وکلا کی جانب سے عدالت عظمی میں درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ وکلا کے دلائل ختم ہونے کے بعد عمران خان کی جانب سے جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ اگر عدالت ان دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بناتی ہے تو 8 ہفتوں کا وقت دیا جائے تاکہ شریف خاندان کے وکلا اس پر بحث کے لیے تیاری کرسکیں۔

شریف خاندان کے وکلا کی جانب سے عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف موجود درخواستوں پر سماعت مقرر کی جائے کیونکہ انہوں نے آف شور کمپنیوں کے الزامات کو مسترد نہیں کیا اور نہ ہی عمران خان نے لندن فلیٹس کا منی ٹریل پیش کیا جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمہ میں جمع کرائی گئی تمام دستاویزات کو ریکارڈ کاحصہ نہیں بنایاجائے گاصرف متعلقہ دستاویزات کاجائزہ لیاجاسکتا ہے۔