معیاری و سستی سفری سہولیات اور کراچی میں160نجی کمپنیوں کی جدید خدمات

167

معیاری و سستی سفری سہولیات اور کراچی میں160نجی کمپنیوں کی جدید خدمات
کار اور رکشے کے بعد اب موٹر سائیکل
شہریوں کے مسائل حل ہونے لگے
(رپورٹ:منیر عقیل انصاری)
muneeraqeelansari@gmail.com
کراچی کا شمار دنیا کے 10 بڑے شہروں اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے طور پر ہوتا ہے اور ملک بھر سے حاصل ہونے والے ریونیو میں 70 فی صد کے قریب حصہ بھی کراچی ہی شامل کرتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ شہر برسوں سے ان گنت مسائل کا شکار ہے۔ سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی کو ہر کوئی ذبح کرنا چاہتا ہے، جہاں بہت سے مسائل اس شہر کے باسیوں کا مقدر ہیں وہیں سب سے اہم ترین اور سب سے بڑا مسئلہ سفری سہولتوں کی عدم دست یابی ہے۔ 2 کروڑ سے زائد نفوس کو اپنی ا?غوش میں160پناہ دینے والے اس شہر کے باسیوں کو بہت سارے روٹس پر پبلک ٹرانسپورٹ دست یاب ہی نہیں ہے، صرف 8 ہزار کے قریب بسیں، منی بسیں اور کوچز ہیں. جو گِنے چْنے روٹس پر چلتی ہیں۔ شہری و صوبائی انتظامیہ کی غفلت، بے پروائی اور عدم دل چسپی کے باعث شہر کے اکثر روٹس سے پبلک ٹرانسپورٹ بہ تدریج غائب ہوتی جا رہی ہے۔ ان ہی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے سابق منتخب ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے اپنے دور میں کراچی کے شہریوں کے لیے مختلف روٹس پر بسوں کا ا?غاز کیا تھا جس سے کسی حد تک ٹرانسپورٹ کی کمی کا مسئلہ حل ہونے لگا تھا کہ ان کی مدت کا اختتام ہو گیا۔ شاید ان کو کچھ وقت اور مل جاتا تو جہاں دیگر مسائل بھی حل ہونا شروع ہوتے وہیں عوام کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا اور انہیں بہتر سفری سہولتیں میسر ا? جاتیں لیکن المیہ یہ رہا کہ ان کے بعد ا?نے والوں نے یہ تھوڑی بہت سفری سہولت بھی عوام سے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر چھین لی اور قوم کو چنگ چی رکشا مافیا کے حوالے کر دیا۔
1996ء4 میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور 1999ء4 میں کراچی سرکلر ریلوے ختم ہونے کے بعد میٹرو پولیٹن شہر میں مسافروں کی بڑھتی ہوئی تعداد تعداد کو سہولت دینے کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ شہر میں پہلی بار ماحول دوست گرین بسز اور یو ٹی ایس بسز نعمت اللہ خان نے نومبر 2002ء4 میں متعارف کرائیں اور اہلیان کراچی نے انتہائی سستے ٹکٹس میں ا?رام دہ ائرکنڈیشنڈ بسوں میں سفر کا لطف اٹھانا شروع کیا۔ اہلیان کراچی جب بس پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے تھے تو بسوں میں غیر ا?رام دہ، ٹوٹی پھوٹی سیٹوں والی بسوں پر عوام انتہائی تکلیف دہ حالت میں سفر کرتے تھے۔ عوام کی اس مشکل کا اندازہ کرتے ہوئے سابق ناظم شہر نعمت اللہ خان نے شہر میں پہلی بار ماحول دوست گرین بسیں متعارف کرائیں جب کہ اسی سلسلے میں اربن ٹرانسپورٹ ا سکیم کا ا?غاز کیا گیا۔ گرین بسیں نارتھ کراچی تا ٹاور، نارتھ کراچی تا لانڈھی، ملیر جب کہ دیگر کئی روٹس پر نئی سی این جی بسیں چلائی گئیں تاکہ عوام کو ریلیف دیا جاسکے لیکن صد افسوس کہ نعمت اللہ خان کی نظامت ختم ہوتے ہی یہ بسیں اچانک شہر سے غائب کردی گئیں، چند ایک روٹس جیسے اورنگی ٹاؤن اور ملیر پر یہ ٹوٹی پھوٹی حالت میں کچھ عرصے تک چلتی رہیں، اس کے بعد یہ ٹوٹی پھوٹی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہوگئیں اور پھر یہ ہوا کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے انہی روٹس پر دوبارہ گاڑیاں چلائیں لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ انہوں نے بد دیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پروجیکٹ کو بھی اپنا کارنامہ قرار دیا حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں گرین اور یو ٹی ایس بسز نعمت اللہ خان نے نومبر 2002ء4 میں متعارف کرائی تھیں۔ سروے کے مطابق کراچی کے مختلف روٹس پر 8000 بسیں، منی بسیں اور کوچز چل رہی ہیں، جو 2 کروڑ 42 لاکھ لوگوں کو ہر دن کام پر لے جانے کے لیے بہت کم ہیں۔ شہریوں کو درپیش ٹرانسپورٹ اور سفری مشکلات کے حل کے لیے شہر کراچی میں کچھ عرصے سے پرائیویٹ کمپنیاں کریم، اوبر کار، بائیکیا موٹر سا ئیکل کے بعد اب کراچی میںUride نیٹ ورک (پرائیویٹ) لمیٹڈ نے بھی اپنی سروس متعارف کرا دی ہے،جس سے کراچی کے شہر یوں کو سفری سہولتیں میسر ہو رہی ہیں لیکن یہ بھی ایک مخصوص مافیا کو گوارا نہیں ہے۔
متوسط طبقے کے لیے بائیکیا ایک موٹرسائیکل سروس ہے، فی الوقت یہ سروس کراچی کے شہریوں کو اوبر اور کریم کی طرز پر ا?سان سفری سہولیات فراہم کر رہی ہے۔چوں کہ یہ سروس موٹرسائیکل کا استعمال کرتی ہے جس میں ایندھن اور مرمت کے اخراجات کم ہوتے ہیں، اس لیے اس کا کرایہ روایتی ٹیکسیوں اور رکشوں سے کم ہوتا ہے۔ یہ کمپنی پارسل ڈیلیوری کے میدان میں بھی خود کو ا?زمانا چاہتی ہے اور ان کے پارسل ڈیلیوری کے چارجز بھی کافی مناسب ہیں۔ بائیکیا کی موبائل ایپ کافی سادہ اور ا?سان ہے۔ ایپلی کیشن کھلتے ہی ا?پ کے سامنے دو اختیارات ا?تے ہیں: بائیکیا سواری کے لیے بلوائیں یا پھر پارسل پہنچانے کے لیے کوئی بھی ا?پشن منتخب کرنے اور ’چلو‘ کا بٹن دبانے پر ایپ ا?پ کو قریب ترین رائیڈر (ڈرائیور) سے رابطہ کراتی ہے جو ا?پ کو ا?پ کے مقام سے لے کر مطلوبہ مقام تک سفر کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ بائیکیا ا?پ کے پیسوں کا بہترین نعم البدل ہے۔اگر ا?پ اپنی منزل پر کم پیسوں میں جلد سے جلد پہنچنا چاہتے ہیں تو ا?پ کو بائیکیا ضرور استعمال کرنی چاہیے۔رکشے اور ٹیکسیوں کے مہنگے کرائے کے بجائے یہ سستی اور باسہولت سواری ہے۔اگر کراچی جیسے بڑے شہر میں ا?پ کے پاس اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل نہ ہو تو سفری اخراجات ا?پ کے ماہانہ بجٹ پر کافی بھاری پڑ سکتے ہیں۔ٹیکسیوں اور رکشوں کے میٹر اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں، لہٰذا ڈرائیور کا جتنا دل چاہے، وہ اتنا کرایہ مانگ لیتے ہیں، حتیٰ کہ کئی مرتبہ قریبی مقامات تک جانے کے لیے بھی ا?پ سے بہت زیادہ پیسے وصول کرلیے جاتے ہیں۔شہرِ کراچی کے پہلے ماس ٹرانزٹ سسٹم گرین لائن بی ا?ر ٹی کی تکمیل میں اب بھی تقریباً ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے اور مکمل ہونے کے بعد بھی اس کا روٹ صرف ایک ہی ہوگا جو روز افزوں بڑھتے ہوئے اس بے ہنگم شہر کے لیے ناکافی ہوگا۔ تو پھر ہمارے پاس کیا متبادل ہیں؟ اس کا ایک متبادل یقیناً بائیکیا ہو سکتا ہے۔
انتظامیہ کا موقف
بائیکیا کی انتظا میہ کا کہنا ہے کہ کمپنی شہریوں گوں کے مسائل حل کر نے کی کو شش کر رہی ہے۔ بائیکیا کے ذریعہ ہم نو جوانوں کو روز گا ر فر اہم کر رہے ہے۔ا?پ اپنی مرضی سے کام کرسکتے ہیں۔ چاہے پورا دن کام کریں یا چند گھنٹوں کے لیے۔ ا?پ با ا?سا نی ایک دن میں 15 سو روپے کما سکتے ہیں۔ شہر یوں کی حفاظت ہمارے لیے سب سے ضروری ہے۔ پارٹنر اور سواری دونوں کی حفاظت کے لیے ہیلمٹ فراہم کیا جاتا ہے اور دونوں کا حادثاتی بیمہ کیا جاتا ہے جبکہ پارٹنر کے موبائل فون اور پارسل کا بھی بیمہ ہوتا ہے۔ بائیکیا کی ایپ بھی قابل اعتماد ہے جس کے ذریعے قریب سے قریب ترسواری ڈھونڈنے میں مدد فراہم کی جا تی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بائیکیا پارٹنر بننے کے لیے درست موٹرسائیکل لائسنس کی کاپی ضروری ہے،رائیڈر کی عمر زیادہ سے زیادہ 55 سال ،صحت مند اورکوئی جسمانی خامی نہ ہو۔موٹر سا ئیکل معیار کے مطابق ہونی چاہیے اور اسے انگر یزی پڑھنی اور لکھنی ا?تی ہو۔ انتظا میہ کا کہنا تھا کہ ایک رائیڈر کوشہر کے راستے معلوم ہونے چاہییں اوردرست شناختی کارڈ کی کاپی بھی ساتھ ضروری ہے اور اسما رٹ فون کے سا تھ گو گل میپ کا استعمال ا?نا بھی ضروری ہے۔
عوامی رائے
بائیکیا استعمال کرنے والے ایک نو جوان اسامہ عباس کا نئی سفری سہولت کے حوالے سے کہنا ہے کہ بائیکیا کے ساتھ میرا پہلا سفر گزشتہ ہفتے ہوا۔ صبح میں نے گھر سے دفتر جانے کے لیے بائیکیا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ بائیکیا سروس کیسی ہے۔ چند ہی منٹوں میں ایک نوجوان اپنی 70 سی سی موٹرسائیکل پر مجھے لینے کے لیے میرے گھر کے باہر موجود تھا۔ اس کی موٹرسائیکل بہتر حالت میں تھی۔ سفر کافی ا?رام دہ رہا، مگر موٹر سا ئیکل چلا نے والا رائیڈر تھوڑی بے احتیاطی سے چلا رہا تھا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ مجھے دفتر پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں اور اگر ا?ہستہ چلنے پر کرایہ زیادہ بھی ہوگیا تو بھی مجھے قبول ہوگا۔ اس نے میری درخواست تسلیم کرتے ہوئے اپنی مو ٹر سا ئیکل کی رفتار ا?ہستہ کردی اور بالا?خر مجھے بحفاظت دفتر پہنچا دیا۔ گھر سے دفتر تک کا 17 کلومیٹر طویل راستہ 36 منٹ میں طے ہوا اور کل کرایہ 134 روپے بنا۔ میں گلستانِ جوہر کا رہا ئشی ہوں اور میرا دفترکراچی پریس کلب کے سامنے ہے۔ اگر یہی سفر رکشے کے ذریعے کیا جائے تو رکشے والے تقریباً 300 سے 400 روپے کے درمیان کرایہ لیتے ہیں۔ جبکہ پرانی ٹیکسیوں میں سفر کر نے کا کرایہ ڈرائیور اپنی مرضی سے جتنا دل چاہے مانگتے ہیں۔ کئی مرتبہ قریبی مقامات تک جانے کے لیے بھی ا?پ سے بہت زیادہ پیسے وصول کرلیے جاتے ہیں۔ تو اس لحا ظ سے بائیکیا کا استعمال انتہائی منا سب ہے۔بائیکیا کے ذریعے سفر کرنے والے عکاشہ تنو یر انصاری نے اپنے تحفظا ت کا اظہا ر کر تے ہو ئے کہا کہ اگر شہر میں ڈبل سواری پر پابندی لگ جا ئے توہم رْل جائیں گے۔ بائیکیا کوا س بارے میں بھی کچھ سوچنا چاہیے، اس کا مزید کہنا تھا کہ میں نے جب بھی بائیکیا کے ذریعے سفر کرنے کے لیے موٹرسائیکل منگوائی، ان میں عقبی شیشے موجود نہیں تھے۔ اور رائیڈر جب سڑک پر لین تبدیل کرنے یا اوورٹیک کرنے کی کوشش کرتا تو اس قبل رائیڈر اپنا سر گھماتا اور پیچھے دیکھتا ہوا ا?گے کی جا نب موٹر سا ئیکل کو چلا رہا ہوتا ہے۔ یہ بہت خطرناک طریقہ ہے،کراچی میں زیادہ تر موٹرسائیکل سوار افراد عقبی شیشے لگوانے کو باعثِ شرم سمجھتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ میں کئی برس سے کر اچی کی سڑکوں پر موٹرسائیکل چلا رہا ہوں اور میری موٹرسائیکل میں ہمیشہ عقبی شیشے موجود ہوتے ہیں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ا?پ کی موٹرسائیکل میں عقبی شیشے موجود ہوں اور ا?پ انہیں استعمال کریں تو حادثے کے امکانات اگر ختم نہیں تو بہت کم ضرور ہوجاتے ہیں۔ اس لیے بائیکیا کی انتظا میہ کو میر ا مشورہ ہے کے وہ اپنے را ئیڈر کی موٹرسا ئیکلوں میں عقبی شیشے کو لا زمی لگو ائے تا کہ وہ اپنی اور اپنے سا تھ بیٹھنے والوں کی زندگی محفوظ بنانے کی کوشش کر سکیں۔ بائیکیا کی ایپ استعمال کر نے والے غفران علی کا کہنا تھا کہ ایپ میں متوقع کرایہ، بعد کے لیے بکنگ کروانے، جمع شدہ بیلنس اور منزل کے انتخاب جیسے بنیادی ا?پشن موجود نہیں ہیں۔ ایپ استعمال کرنے کے دوران مجھے کچھ جگہوں پر تجربہ پریشان کن رہا۔ ایک دن صبح کے وقت جب میں نے ایک اور دفعہ بائیکیا استعمال کرنے کے لیے ایپ کھولی تو گھر کے قریب ترین چاروں کے چاروں رائیڈر ملیر چھاو?نی میں نظر ا? رہے تھے اور ان کے نشانات بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں رہے تھے۔ ’چلو‘ کا بٹن دبانے پر ایپ کسی نہ کسی رائیڈر سے منسلک کر دیتی مگر رائیڈر کنفرم کرنے کے لیے واپس کال ہی نہیں کرتا۔ پانچویں دفعہ کوشش کرنے پر ایک رائیڈر کا نشان لگاتار ملیر چھاو?نی سے گلشنِ اقبال اور واپس ملیر تک اْڑ رہا تھا، جیسے کہ ایپ یہ معلوم نہ کر پا رہی ہو کہ رائیڈر موجود کہاں ہے۔ رائیڈر کو انتظار کروانے یا اسے بلوا کر رائیڈ منسوخ کر دینے کے کوئی چارجز نہیں ہیں جس کی وجہ سے غیر سنجیدہ افراد اکثر رائیڈر کا وقت اور ایندھن ضائع کرتے ہیں۔کمپنی کو یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ ایک اور فیچر جو موجود نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ ا?پ سفر کی شروعات میں اپنی منزل کا انتخاب نہیں کر سکتے اور نہ ہی رائیڈر اسے ایپ میں سیٹ کرتے ہیں۔ایک دفعہ جب رائیڈ ختم ہو جائے تو ایپ جی پی ایس کی مدد سے رائیڈ کا کل فاصلہ بتاتی ہے اور یوں کرایہ طے ہوتا ہے۔ارسلان احمد نا می نو جوان کا کہنا تھا کہ میں نے چند دنوں کے دوران بائیکیا کی سروس 3 مرتبہ استعمال کی اور تینوں بار سفر اچھا اور سَستا رہا۔ ہر مرتبہ خوش اخلاق رائیڈرز ا?ئے جو ٹریفک سگنلز کے پابند تھے۔بائیکیا کے حوالے سے ایک اور نوجوان شارق احسن کا کہنا تھا کہ بعض رائیڈز کے پا س موٹرسائیکلیں بالکل پرانی اور مرمت کی طلبگار نظر ا?ئیں۔ میں نے ایک رائیڈر سے پوچھا کہ کیا کمپنی موٹرسائیکلوں کو سروس میں شامل کرنے سے قبل حفاظتی معائنہ کرتی ہے تو اس کا کہنا تھا کہ ہاں، کرتی ہے۔مگر ایسے کسی بھی حفاظتی معائنے کے کوئی ا?ثار کم از کم مجھے تو نظر نہیں ا?ئے۔ ایک موٹرسائیکل میں پچھلے فٹ ریسٹ نیچے کی طرف مڑے ہوئے تھے، چنانچہ 20 کلومیٹر کا سفر مجھے ٹانگیں لٹکائے ہوئے کرنا پڑا۔اس کے علاوہ کسی بھی رائیڈر کے پاس پیچھے بیٹھنے والے شخص کے لیے ہیلمٹ نہیں ہوتا، جب کہ بائیکیا کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ پیچھے بیٹھنے والے شخص کو ہیلمٹ فراہم کیا جائے گا، چنانچہ ہر دفعہ مجھے اپنا ہیلمٹ لانا پڑا۔ حیرت کی بات ہے کہ مجھے لینے کے لیے ا?نے والے ایک رائیڈر نے دورانِ گفتگو بتایا کہ اس کے پاس لرنرز ڈرائیونگ لائسنس ہے، پکا لائسنس نہیں۔ ایک ایسی کمپنی جو محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے والی کمپنی بننا چاہتی ہے، اس سے ایسی لاپروائی کی توقع ناقابلِ قبول ہے۔ بائیکیا کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ وہ بغیر لائسنس یا لرنرز لائسنس والے رائیڈرز کو اپنی سروس میں شامل نہیں کرتے ہے۔عارف میمن نے گفتگو کے دوران بتا یا کے بائیکیا کمپنی حادثے کی صورت میں 25 ہزار روپے تک طبی سہولیات کی مد میں دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ موبائل فون چھن جانے کی صورت میں 8 ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے اور کمپنی رائیڈرز کو زیادہ مہنگے فون رکھنے سے منع کرتی ہے۔ چوں کہ موٹرسائیکل پر گاڑی کی بہ نسبت حادثے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر رائیڈ کے دوران میرا فون چھن جائے، تو مجھے بھی رائیڈر جتنے پیسے دیے جائیں گے۔ کسی بھی نئی کمپنی میں اس طرح کے مسائل ہونا عام بات ہے، مگر جو چیز اہم ہے وہ کمپنی کا ان مسائل کو بروقت اور احسن طریقے سے حل کرنے کا عزم ہے۔کمپنی کو اپنی موٹرسائیکلوں کی حالت کے حوالے سے کڑے معیار نافذ کرنے چاہییں اور تمام ضروری حفاظتی فیچرز بشمول عقبی شیشے، پھسلنے کی صورت میں بائیک کو مسافروں پر گرنے سے بچانے کے لیے دھاتی سلاخ، پیچھے بیٹھنے والے کے لیے ہیلمٹ، اور سائیلنسر پائپ کے لیے فریم تاکہ پیر یا ٹانگ جلنے سے بچائی جا سکے۔