آئل چوری کا معاملہ ، ایف آئی اے نے ہاتھ کھڑے کر دیئے

158

ایف آئی اے خیبرپختونخوا کے حکام نے خیبرپختونخوا کے کرک اور کوہاٹ کے اضلاع سے آئل چوری ہونے والے معاملہ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کو آ گاہ کیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق کرک میں2012 میں کروڈ آ ئل کی چوری شروع ہو ئی اور2014-15 میں 6 ماہ تک اس میں تیزی رہی، چوری میں 46 ٹینکرز استعمال ہوئے ، ملوث لوگوں کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی، حتمی تحقیقات کے لئے معاملہ نیب کے حوالے کیا جائے ایف آ ئے کے پاس زیادہ اختیارات نہیں۔

پیر کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کا اجلاس بلال احمد ورک کی زیر صدارت ہوا جس میں ڈائریکٹر نیب احترام ڈار نے ٹنڈو عالم آئل کمپلیکس میں سے بتیس کروڑ اسی لاکھ روپے کی تیل چوری کے حوالے سے بریفنگ دی۔

انھوں نے کمیٹی کو آ گاہ کیاکہ تیل چوری میں ملوث افراد سے چار کروڑ روپے ریکور کرلئے ہیں چھ ملزمان نے بارگین کر لی ہے۔

چیئرمین کمیٹی بلال ورک نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ کوئی طریقہ نہیں چوری کرلو اور پلی بار گین کر لو۔

ڈائریکٹر نیب نےبتایاکہ پلی بارگین کے لفظ سے لگتا ہے کہ جیسے یہ مک مکا ہے پلی بار گین کا لفظ تبدیل کر لیا جائے تو اسکے بارے میں پایا جانے والا تاثر ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ چھوٹی مچھلی کے ذریعے ہی بڑی مچھلی تک پہنچا جاتا ہے ۔

وزیر پٹرولیم شاہدخاقان عباسی نے کہاکہ ٹھوس ثبوت کی عدم دستیابی پر پلی بارگین کا ٹول استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایاکہ مقامی پولیس تیل چوری کے کیسوں میں تعاون نہیں کر رہی ، مول کے جو لوگ چوری میں ملوث تھے ان کو نوکری سے نکال دیاگیا مگر ان کے خلاف ایف آئی آرز درج نہیں کروائی گئیں۔

ایف آئی اے حکام نے بتایاکہ کے پی کے کا احتساب کمیشن مول کی تنصیبات سے تیل چوری کا کیس بند کرانا چاہتی ہے احتساب کمیشن کے پاس ثبوت کافی نہیں ہیں۔

احتساب کمیشن ٹھوس ثبوتوں کی عدم دستیابی پر کیس بند کرنے کا سوچ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہمارے پاس اختیارات محدود ہیں اسلئے کسی نیب کے حوالے کر دیا جائے ۔ کمیٹی نے سوئی سدرن سے متعلق معاملات کے حوالے سے ذیلی کمیٹٰی تشکیل دے دی۔