پی پی کے وفد کی سینیٹرسراج الحق سے ملاقات،اے پی سی میں شرکت کی دعوت

247

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کی آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ  دونوں کی طرف سے تاخیر ہوئی ہے ، پیپلز پارٹی کی کل جماعتی کانفرنس میں مشاورت کے بعد شرکت کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ سابق چیئرمین سینیٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری  نے الزام عائد کیا ہے کہ اس معاملے میں سپیکر قومی اسمبلی اپنی غیر جانبدار حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکے اور وزیر اعظم و حکومت کے لیے سہولت کار بن گئے سپیکر کاکام کسی بھی آئینی و قانونی ترمیم کا بل آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار دونوں رہنماوں نے منگل کی شام اسلام آباد میں ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلٰی سطح کے وفد نے فوجی عدالتوں میں توسیع پر وسیع اتفاق رائے سے متعلق کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق سے ملاقات کی وفد کی قیادت اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری کر رہے تھے ، وفد میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر عبدالقیوم سومرواور سردار علی خان شامل تھے ملاقات میں جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی میں پارلیمانی صاحبزادہ طارق اللہ، نائب امیر میاں محمد اسلم اور امیر جماعت اسلامی اسلام آباد زبیر فاروق خان بھی موجود تھے۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے حوالے سے کوئی عام بل نہیں آئے گا بلکہ آئین میں ترمیم ہونا ہے وسیع مشاورت کی ضرورت ہے جماعت اسلامی کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی ہے اور جماعت اسلامی مشاورت کے بعد اپنی پوزیشن سے آگاہ کرے گی۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اس معاملے پر اتفاق رائے حکمران جماعت بالخصوص وزیر اعظم محمد نواز شریف کا کام تھا کیونکہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس وزیر اعظم نے ہی بلائی تھی انکی صدارت میں ہوئی تھی اور سیاسی جماعتوں نے ملکر نیشنل ایکشن پلان کے نکات کو حتمی شکل دی تھی 720دن گزر گئے ہیں حالات جوں کے توں ہیں اور ہم لاہور ، سیہون شریف اور چارسدہ میں سانحات اور حادثات دیکھ چکے ہیں قوم ایک بار پھر پریشانی کا شکار ہو گئی ہے حکومت کا موقف ہے کہ دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کی مزید ضرورت ہے اور حکومت کے مطابق فوجی عدالتوں کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے حکومت نے حالات کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی معاملہ عددی اکثریت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھتا قومی اتفاق رائے کرنا پڑتا ہے انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام میں سپیکر کاکام ثالث کا ہوتا ہے اورجب حکومت اور اپوزیشن میں تنائو یا کسی مسئلے پر شدید اختلافات پیدا ہو جائیں تو سپیکر کو اس وقت ثالثی کرنی پڑتی ہے انہوں نے کہا کہ اس اتفاق رائے کے حوالے سے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو سامنے آنا چاہیے تھا یہ اسپیکر کا کام نہیں تھا جب بل متعارف ہو جاتا اور کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہو جاتا تو اسپیکر موثر کردار ادا کر سکتے تھے اور اس ڈیڈ لاک کو توڑنے کے لیے سپیکر ہی آخری شخصیت ہوتی ہے۔

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو کام آخر میں کرنا تھا وہ پہلے مرحلے میں کر لیا سید خورشید شاہ کا بھی کام تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو اس اہم ایشو پر مشاورت کے لیے بلاتے اور وہاں اتفاق رائے کی بات ہوتی۔

سینیٹر سراج الحق نے پنجاب میں پختونوں کے خلاف کاروائی کی مذمت کی اور کہا کہ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ خواتین کو بھی تنگ کیا جا رہا ہے ایسے ہی رویوں کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان جیسے واقعات ہوتے ہیں بنگلہ دیش بھی ہمارے رویوں کی وجہ سے بنا ایک ہونے کی ضرورت ہے اور کسی صوبے میں مخصوص انداز میں کاروائی تقسیم کرنے کی سازش ہے جس سے قومی مفاد پر حرف آسکتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملے پر ہمارے ساتھ ہے اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید نے بھی اس حوالے سے سخت بیان دیا ہے اب تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش کو ناکام بنائیں ، دہشتگرد اس تقسیم کے لیے اس معاملے کو استعمال کر سکتے ہیں۔

نیئر حسین بخاری نے کہا کہ حکومت نے فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر تاخیر کی ہے اور جب ہم کل جماعتی کانفرنس کے لیے متحرک ہوئے تو حکومت کو بھی اتفاق رائے کا خیال آگیا اسحاق ڈار نے جو اعلان کیا ہے وہ اے پی سی کے حوالے سے ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے۔

نیئر حسین بخاری نے پنجاب میں پختونوں کے خلاف کاروائی کو فیڈریشن کے خلاف سازش قرار دے دیا نیئر حسین بخاری نے کہا کہ حکومت نے ترمیم کے مسودے پر اتفاق رائے کی بات کی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہتری اور نوک پلک کو درست کرنے کی گنجائش موجود رہتی ہے حکومت اگر اکتوبر اور نومبر سے اس معاملے پر کام شروع کردیتی تو شاید فروری میں لاہور ، سیہون شریف ، چارسدہ جیسے بڑے سانحات سے محفوظ رہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے اپنی جانبداری کا مظاہرہ کیا اور وہ حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ سپیکر کی حیثیت ایوان کے محافظ کی ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں قیادت کو وسیع تر مشاورت کا موقع ملے گا اور یہ اے پی سی فیڈریشن کے مفاد میں بھی نیک شگون ہو گی اے پی سی میں حکومتی بل کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے کیونکہ ابھی تک یہ مجوزہ بل ہے۔