افسوس ہے مدارس سے وابستہ افراد کو دہشتگرد کہاجاتاہے،فضل الرحمان

199

جمعیت علماءاسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی کوہ ہمالیہ سے اونچی ، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوچکی ہے ، مدارس اور علمائے کرام کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں بھی گلہ ہے بتایا جائے نوجوانوں کے کندھے پر بندوق کس نے رکھی اور انہیں مورچے میں لڑنے میں تربیت کس نے دی ، ملک کے گھر گھر آئین اور قانون پر عمل درآمد کا پیغام پہنچاچکے ہیں جب تک امن وامان کا قیام ممکن نہ ہوگا اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکیں گے ، ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو اقتدار ہمارے حوالے کیا جائے ہم ایسا کرکے دکھائیں گے ، یورپ ، امریکہ اور یہود و نصاریٰ کی طرز پر سیاست کرنے والوں سے لگتا ہے کہ انہیں دماغ سے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ، خطے میں عالمی قوتوں کی زور آزمائی کے لئے گراﺅنڈ تیار کیا جارہاہے ایسے میں علمائے کرام سمےت مذہبی طبقوں کو بھی احتیاط سے چلنا ہوگا ، جمعیت علماءاسلام جو کہ پارلیمانی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے کا راستہ نہ روکا جائے اگر راستہ روکنے کی کوشش کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ کے ہاکی گراﺅنڈ میں علمائے کرام اور دینی مدارس کے مہتممین سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر جمعیت علماءاسلام کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری ، بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع ،جمعیت علماءاسلام کے صوبائی جنرل سیکرٹری ملک سکندر ایڈووکیٹ ، جماعت کے سینئر رہنماءمولانا عصمت اللہ ،سابق گورنر سید فضل آغا و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھاکہ جمعیت علماءاسلام کی صد سالہ اجتماع کی اہمیت کو دیگر مقررین بیان کرچکے ہیں تاہم میں یہ کہنا چاہوں گا کہ صد سالہ اجتماع جہاں ملک کے تمام مسلمانوں کو اہل اسلام کے تحفظ کے لئے پیغام دینا ہے وہی اس اجتماع کے ذریعے علماءاور امت کو دین اور شریعت کے پیغام کو لے کر آگے جانے کا بھی پیغام دینا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا منشور اسلام اور منزل شریعت ہے تو پھر شریعت کے حوالے سے امت کی رہبری علماءکے سوا کون کرے گا ۔ اگر ہم ملک میں اسلامی حکومت ، آئین اور شریعت کی بات کرتے ہیں تو یہ بات علماءکے سوا کوئی نہیں کرسکتا ۔

انہوں نے کہاکہ قوموں کو اپنی تاریخ پر فخر ہوتا ہے ہمیں بھی قربانیوں سے بھری تاریخ پر فخر ہے ۔ ہماری زندگی اللہ کے دین سے وابستہ ہے علماءاور بزرگوں کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ چیزیں ہم تک پہنچی ہے ہمارے اکابرین اور اسلاف نے ہمیں جو نظریہ دیا اور دین اسلام کا تعارف قرآن و سنت کی روشنی میں دیا ہم اسی کو لے کر میدان میں اترے ہیں ۔ قرآن کریم میں شریعت کے راستے کو مشکل گزرگاہ کے طور پر تعبیر کیا گیا ہے جو بڑا کٹھن راستہ ہے جے یو آئی پسے ہوئے طبقے کی بات کرتی ہے امن ، انسانیت کا بنیادی حق ہے ہم اپنے اجتماعات میں لوگوں کو یہ باتیں سمجھاتے ہیں جب تک لوگوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہوگا اس وقت تک امن کا قیام بھی ممکن نہیں ہوگا ۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جمعیت کا نظریہ انسانیت کی عالمبرداری اور امن وامان ہے ہم سے زیادہ اس کا دعوےدار کون ہوسکتا ہے یہاں علمائے کرام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جو کچھ ہمیں اس ملک میں نظر آرہا ہے اس کا ہمیں بھی گلہ ہے، بتایا جائے کہ آخر نوجوانوں کے کندھے پر بندوق کس نے رکھی اور انہیں مورچے میں لڑنے کی تربیت کس نے دلائی اگر اس کی ذمہ دار ریاست ہے تو وہ اسے قبول کرےں اس حوالے سے مدارس پر شک کی نظر نہ ڈالی جائیں ۔

انہوں نے کہاکہ جمعیت علماءاسلام کے قائدین اور اراکین نے گھر گھر پیغام دیا ہے کہ لوگ آئین پاکستان کے تحت زندگی گزارے آج تمام سیاسی جماعتیں متفق ہےں کہ امن سے رہنا اور آئین کے تحت زندگی گزارنی چاہےے ، ہمیں ان چند لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہےے جو اسلحہ کی بات کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ 70 سال میں ہم نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھا اس دوران ہمیں حکومت بھی نہیں ملی ۔ امریکہ ، یورپ اور یہود کی طرز پر سےاست کرنے والوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں دماغ سے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ۔

انہوں نے کہاکہ کرپشن کے خاتمے کی باتیں کی جاتی ہیں ہم کہتے ہیںکہ ایک دن کے لئے ملکی نظام ہمارے حوالے کیا جائے ہم کرپشن کو ختم کرکے دکھائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ پورے ملک کے علماءکی کرپشن کو اکھٹا کیا جائے تو یہ لاہور کے ڈیفنس کے ایک پلاٹ کے بھی برابر نہیں ہوگی جو ہم پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں وہ کس کو پاک دامن کہتے ہیں ۔ پاکستان کے مسائل کا حل ہمارے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا ۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے پگڑیاں سر جکانے کے لئے نہیں بلکہ سینہ تان کر چلنے کے لئے پہنی ہے ۔ غریب کے لئے حقوق مانگنے کی جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی دوستی کو کوہ ہمالیہ سے اونچی ، شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہرا کہا جاتا رہا ہے لےکن آج یہ دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوچکی ہے ۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر کی سیاست تبدیل ہوگئی ہے امریکہ جو خود کو پوری دنیا کا حکمران سمجھتا تھا اور چاہتا تھا کہ تمام دنیا کے وسائل اس کے قبضے میں آئے کا یہ خواب ادھورا رہ گیا ہے ۔ مغرب کے مقابلے میں دنیا میں نیا معاشی نظام آرہا ہے دنیا میں اس تبدیلی سے پاکستان کہا ںجاتا ہے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں اس خطے میں بعض قوتیں ایک دوسرے کے سامنے آجائیں گی اس حوالے سے گراﺅنڈ تیار کیا جارہا ہے اس سلسلے میں 15 سال انتہائی اہم ہے اور مذہبی طبقات کو بھی احتیاط سے چلنا ہوگا اس صورتحال میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کو جنگ کی صورتحال سے نکالیں ۔ انہوں نے کہاکہ جمعیت علماءاسلام ہمیشہ سے ہی پارلیمانی کردار ادا کررہا ہے ہمار اراستہ نہ روکا جائے ۔

انہوں نے کہاکہ وفاق المدارس 19 سے 20 ہزار مدارس پر مشتمل نیٹ ورک ہے اس کے خلاف کوئی بھی کاروائی تسلیم نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ جے یو آئی کا راستہ کوئی نہ روکے جو ہمارا راستہ روکے گا ہم اسے بتانا چاہتے ہیںکہ وہ گلی کوچوں میںہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات میں ہمارا راستہ روکا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔

جمعیت علماءاسلام کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ آج کے پروگرام کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے تاہم جمعیت کے صد سالہ اجتماع انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا جس میں 35 سے 40 لاکھ افراد شرکت کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ جے یو آئی صد سالہ سفر مکمل کرچکی ہے ہم اس سفر کو دنیا کے سامنے رکھیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ملکی سیاست میں جے یو آئی کا کردار نہ ہوتا تو یہ ملک سیکولر بن چکا ہوتا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم 73کے آئین کی پاسداری کررہے ہیں اجتماع قوت کے ذریعے ہم سیکولر طبقے کو پیغام دے رہے ہیں کہ جے یو آئی ہی ملک میں شرعی نظام نافذ کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین ، کشمیر اور برما سمیت دیگر ممالک کی سیاسی اور اخلاقی مدد جاری رکھی جائے گی ۔

اس سے قبل جمعیت علماءاسلام (ف) کے صوبائی جنرل سیکرٹری ملک سکندر ایڈووکیٹ ، سابق گورنر بلوچستان سید فضل آغا ، ولی محمد ترابی ، حافظ حسین احمد شرودی ، قاری مہر اللہ ، جے ٹی آئی کے شاہ عبداللہ ، مولوی محمد عالم ، مرکزی سالار عبدالرزاق عابد لاکھو ، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات صلاح الدین ایوبی ،مولوی عصمت اللہ ودیگر نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ناموس رسالت کے قانون پر کوئی بھی بات نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ملک کو سیکولر بنانے کی ہر ممکن کوششیں کی تاہم ہماری جدوجہد کے نتیجے میں انہیں اس مقصد میں ناکامی ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد نے فاٹا کی عوام کے لئے حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا تاہم ایسا نہیں ہوا اس لئے آج فاٹا کا ہر شہری حیران و پریشان ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جمعیت علماءاسلام عوام کی دلوں کی دھڑکن ہے اس لئے لوگ جوق درجوق اس میں شامل ہورہے ہیں ۔ اس موقع پر پنجاب اور سندھ میں پشتونوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے اور اس کا سلسلہ روکنے ،مردم شماری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے ، مدارس جو اسلام اور پاکستان کے قلعے ہیں کی تحفظ اور اس کے اساتذہ اور طلباءکو احترام دینے ، قاضی کی پوسٹوں پر علمائے کرام کو بھرتی کرنے اور سی پیک کے مغربی روٹ پر فوری کام شروع کرنے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی قراردادیں پاس کی گئیں۔