امریکی اور عراقی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ داعش تنظیم کا سربراہ ابوبکر البغدادی موصل کے معرکے کو تنظیم کے میدانی کمانڈروں کے لیے چھوڑ کر خود شہر سے باہر صحرائی علاقے میں روپوش ہو گیاہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی اور عراقی ذمے داران نے اس غالب گمان کا اظہار کیا ہے کہ داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی موصل کے کو تنظیم کے میدانی کمانڈروں کے لیے چھوڑ کر خود شہر سے باہر صحرائی علاقے میں روپوش ہو گیا ہے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی ہیں کہ البغدادی دریائے فرات کے شمال میں ایک دور دراز صحرائی علاقے میں منتقل ہو کر مسلسل اپنے مقامات تبدیل کر رہا ہے۔
وہ رابطے کا کوئی آلہ استعمال نہیں کر رہا ہے جس کے ذریعے اس پر نظر رکھی جا سکے اور سفر کے دوران اپنی گاڑیوں کو بھی تبدیل کرتا رہتا ہے۔امریکا نے البغدادی کا کھوج لگانے کے لیے ایک مشترکہ فورس بھی تشکیل دی ہے۔ اس فورس میں اسپیشل آپریشنز کے کمانڈوز اورسی آئی اے کے اہل کار شامل ہیں۔ اس سلسلے میں مصنوعی سیاروں سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔تقریبا چار ماہ سے زیادہ عرصے سے البغدادی کا کوئی ریکارڈ شدہ پیغام بھی جاری نہیں ہوا ہے۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر داعش تنظیم کی سرگرمیوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی اتحاد کے فضائی حملوں میں داعش تنظیم کے 40 سے زیادہ کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔ادھر موصل میں سکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ شہر کے مغربی حصے میں داعش تنظیم کے ارکان نے کئی علاقوں میں موبائل فون کے ٹاوروں کو آگ لگا دی ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ مقامی آبادی کے سکیورٹی حکام کے ساتھ تعاون کو متاثر کیا جا سکے۔یاد رہے کہ عراقی افواج مقامی آبادی کی طرف سے موبائل فون کے ذریعے سکیورٹی فورسز کو پیش کی جانے والی معلومات پر بڑے پیمانے پر انحصار کر رہی تھیں۔