سندھ اسمبلی نے 7مارچ کو ہونے والے اجلاس میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی قرارداد مسترد کردی۔ یہ قرارداد ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی کامران اختر نے پیش تھی جس کی سندھ حکومت کے اراکین کی اکثریت نے مخالفت کی اور اسے مسترد کردیا۔ کامران اختر نے اردو زبان کے نفاذ کے لیے قرارداد کی حمایت میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ ’’سپریم کورٹ نے ملک میں اردو کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا تھا، میرا مقصد کسی زبان کو ہٹ کرنا نہیں ہے بلکہ اردو کو مکمل طور پر نافذ کرنا ہے۔‘‘
لیکن اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان کے قوم پرست رہنماء نثاراحمد کھوڑو نے کہاکہ ’’یہ ہم سب کو پتا ہے کہ اردو کو قومی حیثیت حاصل ہے، اور یہ حیثیت حاصل ہے تو یہ کہنا کہ سندھ حکومت احکامات صادر کرکے اسے رائج کرے، میں سمجھتا ہوں کہ تُک کی بات نہیں بنتی۔‘‘ نثار کھوڑو نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ سندھ اسمبلی میں سندھی بولی جاتی ہے، سندھی لکھی جاتی ہے، تو کیا فاضل ممبر کا یہ مقصد ہے کہ سندھ اسمبلی میں بھی یہ زبان نہ استعمال کی جائے! اردو زبان میں سندھی زبان کی حمایت کرتے ہوئے نثار کھوڑو بول رہے تھے کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ بجائے ہم اس بحث میں پڑیں، اس قرارداد کو واپس لیا جائے تو بہتر ہے۔‘‘
نثار کھوڑو کی بات پر اسپیکر آغا سراج درانی نے کامران اختر سے دریافت کیا کہ نثار کھوڑو نے گورنمنٹ کا مؤقف پیش کیا ہے، اب آپ بتائیں کہ اس قرارداد کو واپس (withdraw) لیں گے یا نہیں؟ جس پر کامران اختر نے جواب دیا کہ ’’نہیں سر میں قرارداد withdraw نہیں کروں گا۔ بعدازاں اسپیکر نے قرارداد پر رائے شماری کرائی جس پر ایوان میں موجود اکثریتی ارکان نے اسے کثرتِ رائے سے مسترد کردیا۔
اس طرح پاکستان کے اندر ہی قومی زبان کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے اس کی بے توقیری کی گئی۔ یہ سب کچھ اُس اسمبلی میں ہوا جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ سندھ اسمبلی کے ارکان نے اردو زبان کو سرکاری دفاتر، نیم سرکاری دفاتر اور دیگر اداروں میں رائج کرنے کی مخالفت کرکے دراصل 1973ء کے متفقہ آئین کی بھی مخالفت کی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کی بھی کھلم کھلا مخالفت کرکے توہینِ عدالت بھی کی گئی۔ آئین کی شق 251 کے تحت اردو کو دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں 1973ء کا متفقہ آئین منظور کرایا گیا، وہی پیپلز پارٹی آئین کے تحت اردو زبان کو آئینی حق دینے سے گریز کرتی رہی اور اب تک کررہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھی ارکان اردو زبان کو اہمیت نہ دے کر اپنے احساسِ کمتری کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں اندازہ بھی ہورہا ہے کہ اب سندھی زبان تو ان کے وہ بچے بھی نہیں جانتے اور سمجھتے جو کراچی اور حیدرآباد میں مہاجروں یا اردو بولنے والوں کے علاقوں میں پیدا ہوئے اور ان ہی کی زبان و لباس اور ثقافت کے دلدادہ ہوچکے ہیں۔ اب سندھیوں کی نئی نسل زبان تو کیا اپنا روایتی لباس بھی نہیں پہننا چاہتی۔ وہ تو مہاجروں کے لباس پینٹ شرٹ اور اردو ہی سے واقف ہے۔ یقین ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے بچوں سمیت کراچی میں جنم لینے والے سندھی بچوں کی اکثریت اپنی مادری زبان سے ناآشنا ہوچکی ہوگی۔ ایسی صورت میں سندھی ارکان اسمبلی کا اردو کو نظرانداز کرکے سندھی زبان کو اہمیت دینا کسی بھی لحاظ سے اُن کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ ویسے بھی سندھ سے دور جانے کی صورت میں انہیں اردو ہی کی ضرورت پڑے گی۔ ایسی صورت میں سندھ اسمبلی کے سرکاری ارکان کے اس متعصبانہ طرزعمل۔۔۔ جس کے تحت اردو زبان کو سرکاری طور پر رائج کرنے کی قرارداد کی مخالفت اردو کو قومی زبان ماننے سے انکار کے مترادف ہے۔۔۔ پر کوئی بھی سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرسکتا ہے۔ بلکہ سپریم کورٹ خود بھی ملک کی قومی زبان کے نفاذ کو مسترد کرنے اور اپنے حکم پر عمل نہ کرنے پر ازخود نوٹس لے کر توہین عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے۔ قوم کو عدالتِ عظمیٰ سے توقع ہے کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گی۔
اردو زبان اور قائداعظم محمد علی جناح
قائداعظم نے فرمایاتھا:
’’میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور صرف اردو ہے۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی کارہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے۔‘‘ (ڈھاکا، 21 مارچ 1948ء)
قائداعظم نے ایک بار پھر اسی شہر میں 24 مارچ 1948ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہوکر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہوسکتی ہے، اور میری ذاتی رائے میں وہ صرف اردو ہے۔‘‘
اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اب بہت جلد یہ ان شاء اللہ بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل کرلے گی۔کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک مثلاً سنگاپور، ملائشیا، سری لنکا، ترکی، برطانیہ اور امریکا میں بھی اردو زبان کو پسند کرنے اور اپنانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ انگریزی کے بعد ایک ایسی زبان ہے جو مختلف قوموں میں رابطے کی زبان کا کردار ادا کررہی ہے۔ اردو زبان کو اولیاء کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ دکن میں اس کو دکنی، گوجرہ میں گوجری اور ہندوستان میں اسے ہندی یا پھر ہندوی کہا جاتا تھا۔ اسے قدیم زمانے میں ریختہ، اردوئے معلیٰ اور لشکری زبان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اردو زبان رابطے کی زبان ہے۔ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ اس زبان کو لشکری زبان اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان میں کئی طرز کے لوگ آتے تھے جو آپس میں ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے لیے اپنی آبائی زبان کے الفاظ بھی استعمال کرتے تھے، اور یوں مقامی لوگوں کے الفاظ بھی اپنی زبان میں داخل کرتے رہتے۔ اور پھر ایک بڑی زبان کا وقوع ہوا جو آج دنیا کی تیسری بڑی زبان مانی جاتی ہے۔
آج کے دور میں ملک کی نئی نسل کو اردو زبان کی بہت ضرورت ہے، کیونکہ وہ تعلیم ہی اثر رکھتی ہے جو انسان کو اپنی قومی زبان میں حاصل ہو۔ بدقسمتی سے دہرے تعلیمی نظام نے نہ صرف ہم کو اپنی ہی زبان سے دور کیا بلکہ دوسری زبان کو بھی معیار کے مطابق سیکھنے اور سمجھے سے محروم رکھا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر مائل کیا جائے۔کیونکہ اپنی زبان سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کررہی ہے۔ غیر زبان کی موجودگی میں اردو لکھنا اور بولنا نئے بچوں کے لیے کسی محاذ سے کم نہیں رہا۔
سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کو
’’ قومی زبان‘‘ قراردینے کی قراداد منظور!
اب آیئے بات کرتے ہیں سندھی زبان کی۔ سندھ اسمبلی میں اکثریت میں موجود سندھی نمائندوں کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اردو کے بجائے صوبے میں سندھی کی اہمیت کو کسی بھی طرح بڑھایا جائے اور اسے فروغ دیا جائے۔ اس مقصد کے تحت سندھی ارکانِ سندھ اسمبلی نے 27 ستمبر 2016ء کو سندھی زبان کو ’’ قومی زبان‘‘ قرار دینے کی قرارداد پورے تعصب کے ساتھ منظور کرلی۔ یہ قرارداد فنکشنل لیگ کے ہندو رکن اسمبلی نے پیش کی تھی جس کی اسمبلی میں موجود ایم کیو ایم کے ارکان نے مخالفت کی۔ تاہم اُس وقت سینئر وزیر نثار کھوڑو نے قرارداد پر اعتراض کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ’’سندھی زبان کو قومی زبان قرار دینے سے دیگر زبانوں کا کیا ہوگا؟‘‘ یہ نہیں پتا چل سکا کہ نثار کھوڑو کا یہ جملہ طنزیہ تھا یا فکریہ؟ تاہم اس اعتراض کے باوجود انہوں نے سندھی زبان کو قومی زبان قرار دینے کی قرارداد کی مخالفت نہیں کی تھی۔
nn