تعلیمی بورڈز میں کرپشن اور محکمہ اینٹی کرپشن

300

یہ بات تو عام سنائی دی جاتی ہے کہ کراچی کے بورڈ آفٖ سیکنڈری اور بورڈ آف انٹر میڈیٹ میں بھاری رشوت لیکر امتحانی کاپیوں کے حاصل کردہ نمبروں میں تبدیلی کردی جاتی ہے۔ تاہم گزشتہ سال نو اگست کو محکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے اسی طرح کی اطلاعات پر کی جانے والی کارروائی نے سب ہی کی آنکھیں کھول دیں لیکن ان طالب علموں کی نیندیں اڑ گئی جو رات دن محنت کرکے امتحانات دیتے رہے۔ امید تھی کہ اینٹی کرپشن کی چھاپا مار کارروائی کے نتیجے میں ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا‘‘۔ لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اصل کرپٹ عناصر کا اینٹی کرپشن پتا نہیں لگا سکی حالاں کہ بورڈ کے کئی افسران و ملازمین دیگر گرفتار بھی کیے گئے لیکن ابھی تک کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ اینٹی کرپشن نے امتحانی کاپیوں میں رشوت کے عوض کیے جانے والے ردو بدل کا پتا لگاکر اصل ذمے داروں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا ہے۔ ویسے تو یہ بات بھی عام ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن جس ادارے میں کرپشن کے سدباب اور کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کے لیے داخل ہوتا ہے، اس کے بعد ایسے ادارے یا اداروں میں کرپشن ختم ہونے کے بعد جدید طریقوں سے پھیل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹر بورڈ اور میٹرک بورڈ کے امتحانات میں نقل ہی نہیں کرائی جاتی بلکہ اب نااہل طالب علموں کو امتحان دلانے کے لیے خصوصی انتظامات بھی کیے جاتے ہیں۔ یہ اطلاعات عام ہیں کہ ان انتظامات کے تحت بورڈ اور امتحانی مراکز کے عملے کی ملی بھگت سے طالب علموں کو ان کی خواہش کے مطابق خصوصی کمروں میں بٹھانے کے ساتھ پرچہ مکمل حل کرنے اور کرانے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اب اس عمل سے تعلیمی معیار کا جنازہ اٹھے تو کسی کو کیا دلچسپی ہوگی؟۔
دکھ صرف اس بات کا ہے کہ کب تک ہمارے اداروں سے منسلک کرپٹ عناصر اپنی ہی قوم کو چند روپوں کی خاطر سہولت کے نام پر نقصان پہنچاتے رہیں گے اور کب تک باصلاحیت اور اہل افراد کا حق مارا جاتا رہے گا۔ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کی بھی مجبوری ہے کہ ان کی ’’دکانیں‘‘ اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک بدعنوان افسران ہوں گے اور بدعنوانی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر سارے ادارے فرائض دیانت داری سے اد کرنے لگ جائیں اور شکایات ہی ختم ہوجائیں تو پھر ان اداروں کا کیا فائدہ؟۔ ایسی صورت میں وہی ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے جہاں کرپشن کے سلسلے کی شروعات کا علم ہوا وہاں کرپشن کے خاتمے کے نام پر متعلقہ اداروں کوآتے جاتے رہنا چاہیے۔ کبھی فائلوں کا ڈھیر اٹھا لائے تو کبھی بندوں کو بھی پکڑ لائے۔ یہ وہ سلسلہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور دیگر متعلقہ محکموں اور اتھارٹی کا ’’بزنس‘‘ نہ صرف چل رہا ہے بلکہ پھل پھول رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان اداروں کی مسلسل کارروائیوں سے کرپشن کے اصل چمپیئنوں کا پتا نہیں لگتا، پتا لگنے کے باوجود ان پر ہاتھ مختلف وجوہ کی بناء پر نہیں ڈالا جاتا جن میں ایک وجہ ’’بزنس کا تسلسل‘‘ بھی ہوتا ہے۔
بات بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں کرپشن کی ہورہی ہے۔ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن نے کسی امتحانی سینٹر کے عملے کے خلاف کارروائی نہیں کی اور نہ ہی امتحانات کے دوران ان مراکز کی اچانک چیکنگ کی ضرورت محسوس کی۔ کیوں؟ اب یہ بھی بتادیا جائے تو متعلقہ ادارے کیا بتائیں گے، اس سوال کا جواب تو وہی دے سکیں گے اور انہیں دینا بھی چاہیے۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے دوران تقریباً ہر سال ہی یہ اطلاعات ملتی ہیں کہ گورنمنٹ ڈگری کالج گلستان جوہر، شیخ زاید کالج یونیورسٹی روڈ، کی طالبات کا سینٹر اگر خاتون پاکستان گرلز کالج اسٹیڈیم روڈ پر پڑے گا، تو طالبات کا فیل ہونا یقینی ہوجائے گا جو امتحانات تیاری کرکے دیا کرتی ہیں۔ ہاں البتہ اگر ’’سیٹنگ‘‘ کے ساتھ امتحانات دیے جائیں تو پھر انہیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ راقم کے پاس ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ مذکورہ امتحانی مراکز میں پرچہ دینے والی طالبات مسلسل دو سال سے مع سپلیمنٹری امتحانات فیل ہورہی ہیں جنہوں نے میٹرک میں اے اور اے پلس حاصل کیا تھا۔ اسی طرح شہر کے دیگر کئی کالجوں میں بھی ایسا ہی کچھ سلسلہ قابل بچوں کے ساتھ ہورہا ہے۔
اینٹی کرپشن کے چھاپا مار ایکشن پر انٹر بورڈ کے ذمے داروں کا یہ کہنا بھی اہم ہے کہ بورڈ میں چھاپوں کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا جب سابق گورنر نے اپنے چہیتے افسر کو گورنر ہاؤس سے ہٹا کر یہاں چیئرمین تعینات کیا۔ مگر یہ بات بھی کوئی مناسب نہیں لگتی کہ ڈپٹی سیکرٹری کی حیثیت سے بورڈ آف انٹر میڈیٹ میں ضم ہونے والے کا ناظم امتحانات کی حیثیت سے فریش اپائمنٹ کردیا جائے۔ یہ اطلاعات ملیں ہیں کہ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی میں سیکورٹی انتظامات کے نام پر بورڈ انتظامیہ نے جن کیمروں اور آلات کی خریداری کے ٹینڈرز طلب کیے ہیں، ان پر کنٹریکٹر فرمز نے ہی اعتراض کردیا کہ جو سیکورٹی سسٹم لگانے کی بات کی جارہی ہے وہ اب پرانے اور آؤٹ ڈیٹ ہوچکے ہیں، ایسے کیمروں کی خریداری سے بہتر ہے کہ یہ نہیں لگائے جائیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس اعتراض کے بعد اب بورڈ کی انتظامیہ نے ٹینڈرز منسوخ کرکے دوبارہ طلب کررہی ہے۔