انتہا پسند ہندو حکومت بھارتیوں کے ساتھ جنگ کی شرعات

149

بھارت اپنے متعصب حکمرانوں کے ہاتھوں اب اس جگہ پہنچ رہا ہے جہاں سے اس کی واپسی کے راستے بند ہوجائیں گے۔ نریندر مودی کے دورِ حکمرانی میں وہی سب کچھ ہورہا ہے جس کے خدشات پُرامن بھارتیوں کو لاحق تھے۔ یہ اندازہ نہیں تھا کہ مودی دور میں مسلمانوں کے خلاف ایسے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے گا جس کے نتیجے میں برصغیر کے اس حصے میں ایک بار پھر دو قومی نظر یے کا احیاء ہوجائے گا اور بھارت میں بچے کھچے مسلمان اسی زمین پر اپنے لیے الگ ملک مانگنے کی تحریک شروع کرنے کے لیے عملی اقدامات پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ خود عام ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی مودی سرکار کے ارادوں کو بھانپ کر خوفزدہ ہورہے ہیں۔ تاہم بھارت کے مسلمان 70 سال بعد اب پھر اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں جس سے وہ 1946-47ء میں گزر چکے تھے۔ یہ صورتِ حال اُس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ دنوں بھارتی پارلیمنٹ میں ایک ایسا بل پیش کیا گیا جسے ’’اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968ترمیمی بل‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پیش کیے گئے متنازع بل کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بل سے غیر منصفانہ طور پر زیادہ تر مسلمان متاثر ہوں گے۔ یہ بل اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی واک آؤٹ کے باوجود منظور کیا گیا ہے۔
بھارتی ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ بھارت نے ’’اینیمی پراپرٹی ایکٹ‘‘ 1968ء میں نافذ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ اُن بھارتی شہریوں کی جائدادیں ضبط کرسکتی ہے جو جنگ کے دوران چین یا پاکستان چلے گئے تھے۔ بھارت نے ان جائدادوں کو ’’دشمن کی جائیداد‘‘ کا نام دیا تھا۔
راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا یہ ترمیمی بل اگر منظور ہوگیا تو اس کا اطلاق اُس وقت سے ہوگا جب اصل قانون منظور ہوا تھا۔ چونکہ اس ترمیمی بل میں ’دشمن‘ کی تعریف کو مزید وسیع کردیا گیا ہے اور اس میں دشمن قرار دیے گئے شخص کے قانونی وارثوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے چاہے وہ وارث بھارت کا شہری ہو یا کسی ایسے ملک کا جسے بھارت دشمن نہیں سمجھتا، اس لیے لوگوں میں خوف وہراس اور تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی باشندے یہ سوچ رہے ہیں کہ جس ملک کی وفاداری کا انہوں نے ستّر سال قبل عہد کیا تھا اور اسی کو اپنا اصل دیس سمجھا تھا آج وہی ہمارے ساتھ غیروں جیسا سلوک کرنے لگا ہے۔ اس بل کے ساتھ جو بحث چھڑ گئی ہے اس حوالے سے بھارتی راجیہ سبھا کے ایک رکن حسین دلوائی حکمرانوں سے سوال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’’جب کوئی خاندان بھارتی شہری ہے تو پھر حکومت کیسے انہیں دشمن تصور کرسکتی ہے اور ان سے جائداد کی جانشینی کا حق چھین سکتی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ آئین کے خلاف ہے اور اس سے مسلمانوں کو غیر منصفانہ طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بھارت کی مودی حکومت اس بل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس کا اِس مجوزہ قانون کے حوالے سے کہنا ہے کہ
’’یہ ترامیم عوام کے’’وسیع تر مفاد‘‘میں ہیں۔ ان ترامیم کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کھربوں روپے مالیت کی دشمن کی جائدادیں دوبارہ دشمن یا دشمن کمپنی کے پاس نہ چلی جائیں۔‘‘ گوکہ ہندوپرست حکومت انسانوں کی محبتوں سے زیادہ جائدادوں کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ’’جان جائے پر دمڑی نہ جائے۔‘‘ ہندوستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے نئے قانون کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے اپنی سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی اہمیت نہیں دی۔ یہ کہتے ہوئے بھارتی لوگ بھارتی سپریم کورٹ کے 2005ء میں دیئے گئے اُس فیصلے کو یاد دلا رہے ہیں جس کے تحت بھارت چھوڑ کر جانے والوں کے وہ رشتے دار قانونی وارث ہیں جو اب تک بھارت میں ہیں اور بھارتی شہری ہیں۔ اس طرح وہ ’’دشمن کی جائداد‘‘ کی حوالگی کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ محمود آباد کے سابق راجا کے خاندان کی جانب سے دائر درخواست پر سنایا تھا جو کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے دوران بھارت چھوڑ گئے تھے۔ تاہم اب ایسے افراد کے لیے بھی فکر کی بات ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون منظور ہوگیا تو سب سے زیادہ نقصان محمود آباد کے سابق راجا کے خاندان کو ہوگا جنہوں نے 2005ء میں اپنی 900 جائدادوں کے حق میں سپریم کورٹ سے فیصلہ حاصل کیا تھا۔ بھارتی میڈیا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قانون کی منظوری کی صورت میں نواب آف بھوپال کی جائداد بھی حکومتی تحویل میں جاسکتی ہے۔ اس طرح بولی ووڈ اداکارہ شرمیلا ٹیگور اور ان کے بیٹے فلم اسٹار سیف علی خان بھی جائداد سے محروم ہوسکتے ہیں، کیوں کہ سیف علی خان کے والد منصور علی خان پٹودی کے خاندان کے بھی کچھ لوگ کئی دہائیوں قبل پاکستان منتقل ہوئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے ایسے مسلمان بھی خوف زدہ ہیں جن کے رشتے دار پاکستان کو قبول کرکے ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ہوچکے ہیں، اور وہ پاکستان میں اب بھی ایک الگ ملک حاصل کرنے کی خوشیاں نہ صرف مناتے ہیں بلکہ ہر لحاظ سے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں سے زیادہ خوشحال ہیں۔
بھارتی پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں پیش کیے جانے والے اس ترمیمی بل میں جسے عام طور پر مسلمانوں کے خلاف بل قراردیا جارہا ہے، یہ شق بھی رکھی گئی ہے کہ دشمن کی جائداد سے متعلق معاملے کی سماعت سول عدالت نہیں کرسکے گی۔ یہ شق سب سے زیادہ تکلیف دہ قرار پارہی ہے۔ خیال ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کے اس بل کے خلاف لوگ جلد ہی سڑکوں پر آجائیں گے اور سخت احتجاج کریں گے۔
بھارتی مسلمانوں اور ان کے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک:
بھارت میں مسلمانوں کی تعداد وہاں کی کُل آبادی کا 13 فیصد ہے۔ لیکن یہ ایک طاقتور اقلیت کہلاتی ہے۔ یہ واحد اقلیت ہے جس سے نہ صرف دیگر اقلیتوں کے اچھے تعلقات ہیں بلکہ یہ ہندوؤں کی اکثریت کی بھی پسندیدہ اقلیت کہلاتی ہے۔ اس کے باوجود ان مسلمانوں کو زمینوں کے حقوق، جائداد خریدنے اور کرائے پر حاصل کرنے کے ساتھ ملازمتوں کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اس امتیازی سلوک کا سامنا نہ صرف نامور مسلمان سیاسی، ادبی، مذہبی اور فلمی شخصیات کو کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے غیر مسلم دوستوں کو بھی ان سے تعلقات کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔
اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968 اور مسلمانوں کی جائداد
ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968کے قانون کے تحت اب تک 2100 ایسی املاک اپنے قبضے میں لے چکی ہے جو پرانے بھارتیوں کی تھیں لیکن وہ پاکستان یا دیگر ملکوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔ یہ جائدادیں زیادہ تر مسلمان خاندانوں سے واپس لی گئی ہیں اور ان کی مالیت 10 کھرب بھارتی روپے (15 ارب ڈالر) بتائی جاتی ہے۔ بھارت شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انتہا پسند ہندو مسلمانوں کے معاملے میں انسانیت کے اصولوں کو بھی روند ڈالتے ہیں۔ آج بھارتی حکومت انتہاپسند ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے جن سے خود عام ہندو اور دیگر مذاہب کے بھارتی بھی پریشان ہیں۔ عام ہندو آج یہ سوچ رہا ہے کہ ’’ہندوتوا کے نام پر بھارت کو تباہی کی طرف لے جانے کی سازش اس سے پہلے اتنی شدت سے نہیں ہوئی تھی‘‘۔ انہیں خدشہ ہے کہ مودی حکومت بھارت کو مضبوط نہیں بلکہ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
nn