حکمران سال میں صرف ایک ڈیم بھی بناتے تو آج ہمارے پاس 68 ڈیمز ہوتے،سراج الحق

191

امیر جماعتِ اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر حکمران سال میں صرف ایک ڈیم بھی بناتے تو آج ہمارے پاس 68 ڈیمز ہوتے۔ لیکن بے حس حکمرانوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس وقت ہندوستان 23 بڑے ڈیمز بنارہا ہے، جس سے پاکستان کے دریاوں کا پانی خشک ہوجائے گا اور نتیجتاً ہماری زمینیں بنجر ہوجائیں گی۔ ہندوستان افغانستان کے ساتھ معاہدہ کرکے دریائے چترال، پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہوکر دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے، اس پر بھی پانچ ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کے پاس کوئی پلاننگ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان 100 ڈیم بننے چاہئیں۔ حکمران بتائیں اگر کالا باغ ڈیم متنازعہ ہے تو پھر بھاشا ڈیم پر کیوں کام آگے نہیں بڑھ رہا۔ انہوں نے کہا کہ دراصل حکمران چاہتے ہیں کہ عوام ہر طرح سے ظلم، ناانصافی اور استحصال کا شکار رہیں۔ہم افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ اگر ملا عمر وفات پاگئے ہیں تب بھی مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔ انشاءاللہ پاکستان ایک دن اسلامی پاکستان بن کر رہے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعتِ اسلامی راولپنڈی کے زیر اہتمام ریلوے کلب راولپنڈی میں منعقدہ ”عید ملن پارٹی“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سراج الحق نے کہاکہ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جو عقیدے کی بنیاد پر وجود میں میں آئی، اور وہ عقیدہ لا الٰہ اِلا اللہ محمد رسول اللہ تھا۔ مدینے کی اسلامی ریاست اسی نعرے اور عقیدے کی بنیاد پر وجود میں آئی کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام ہونا چاہیے۔ پاکستان میں بھی اسی عقیدے کی بنیاد پر لوگوں نے جدوجہد کی۔ انگریزوں، ہندووں اور سامراجی نظام سے آزادی کی جدوجہد۔ لیکن 68 سال گزرنے کے باوجود ہمیں حقیقی آزادی اور منزل نصیب نہیں ہوا۔ جو لوگ مغلوں اور انگریز سامراج کے دور میں حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے اُنہیں غداروں اور ابن غداروں نے پاکستان بننے کے بعد اس پر قبضہ کرلیا، اور اپنی سیاسی دہشت گردی کے ذریعے وہ گزشتہ 68 سالوں سے ملک کے کروڑوں عوام کو ےرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند سیاسی لیڈروں نے 200 بلین ڈالر بیرون ملک بنکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ یہ پیسہ ملک میں واپس آجائے تو تو ہمارے تمام قرضے ختم ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ یہاں پر اسلامی انقلاب کی جدوجہد کرنے والے مخلص اور باکردار لوگوں کو منتخب کیا جائے۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہمارے نزدیک ملک کے تین بنادی مسائل: لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری اور بدامنی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان چار چار ڈگریاں لینے کے باوجود بے روزگار پھر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسی اشرافیہ کی عیاشیوں کی بدولت آج ملک کا ہر بچہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کا مقروض ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہتے دریاو¿ں سے نوازا ہے، لیکن یہاں لوڈ شیڈنگ کا راج ہے۔ پاکستان کی سرزمین زرخیر ہے، لیکن یہاں کا کسان آج بھی قرضوں تلے دبا ہوا کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ چترال سمیت کے پی کے، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقے بدترین سیلاب کی زد میں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بنکوں کا نظام عام آدمی کے لیے نہیں بلکہ امیر زادے ہی بنکوں سے بڑے بڑے قرضے حاصل کرتے ہیں، لیکن غریب کے بچے کو تعلیم کے لیے بھی پیسے نہیں ملتے۔ انہوں نے کہا کہ بنکوں کا نظام دراصل خوشحال لوگوں کو مزید خوشحال بنانے کا نظام ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسمبلی میں جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے اپنے لیے مراعات حاصل کرنے کی بات کی۔ میں نے کہا کہ میں تو غریب کے لیے آٹا، دال اور چینی مانگتاہوں۔ انہوں نے کہا آپ بہت بھوکے ہیں۔ میں نے کہا ہاں، میں اُس وقت تک بھوکا ہوں جب تک اس ملک کے 18 کروڑ عوام بھوکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غریب عوام کے حصے میں بجلی کے بھاری بھرکم بل اور ٹیکس دینے کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے کہ اس نظام کو سیاسی دہشت گردوں نے یرغمال بنارکھا ہے۔ یہی روایتی سیاستدان کبھی کسی جھنڈے تلے، اور کبھی کسی پارٹی تلے جمع ہوتے رہتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت فرمایا تھا کہ چند رئیس زادے اگر خانہ کعبہ
کے غلاف میں بھی چھپ جائیں تو ان کا احتساب ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت سے عوام کو بڑی توقعات تھیں، اسی لیے عوام نے انہیں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اسمبلیوں میں بھیجا، لیکن لگتا ہے کہ یہ بھاری مینڈیٹ عوام سمیت حکمرانوں کو بھی اپنے وزن تلے نیچے دبا گیا۔ انہوں نے کہا کہ غریب کا پرسان حال غریب ہی ہوتا ہے، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ان امیرزادوں کو بار بار آزمانے کے بجائے جماعتِ اسلامی جیسی غریب پرور قیادت پر اعتماد کیا جائے تاکہ آپ کے مسائل حل ہوں اور تقدیر بدلے۔