بلدیاتی اداروں کی تباہی اور منتخب قیادت کی ترجیحات

214

بلدیہ عظمیٰ کراچی وہ ادارہ ہے جسے وہ افراد تباہ و بربادکررہے ہیں جو 1992ء، 1997ء اور 2007ء تا 2009ء بھرتی ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ان برسوں کے دوران ملازمتیں حاصل کرنے والے تمام ہی افسران و ملازمین اس کو نقصان پہنچانے میں مصروف نہیں ہیں بلکہ اپنے ہی ادارے کو مالی اور انتظامی طور پر مسائل کا شکار کرنے والوں کی اکثریت اُن افسران اور ملازمین کی ہے جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ یہ تمام لوگ کراچی میٹروپولیٹن ہی کیا بلکہ شہر کی ضلعی بلدیات کو بھی اپنی ’’جاگیر‘‘کی طرح سمجھ کر وہ سب کچھ کرتے رہے جو ان کے بس میں تھا اور ہے۔ آج بھی ان اداروں میں افسران کی ایک بڑی تعداد صرف اوپر کی آمدنی کے حصول کے لیے دفتر آتی ہے۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں پوسٹنگ نہ ہو تو افسران اپنے آپ کو بے روزگار تصور کرنے لگتے ہیں، ساتھ ہی دفتر آنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دفتر نہ آنے پر کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں اور کارروائی بھی نہیں کی جاتی۔ آج بلدیہ عظمیٰ ہی نہیں بلکہ ضلعی بلدیات دنیا کے وہ نرالے ادارے بن چکے ہیں جہاں قانون و اصول کے سوا سب کچھ چلتا ہے۔
بلدیہ کراچی کو نقصان پہنچانے والوں نے ایک دو نہیں بلکہ کئی کئی طریقوں سے نقصان پہنچایا ہے، اور ان اداروں کے ذریعے وہ لوٹ مار کی، اور کررہے ہیں جس کی کوئی دوسری مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ تباہی کا یہ سلسلہ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں شروع ہوا اور 2013ء میں سٹی گورنمنٹ کا نظام ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے آخری اور دوسرے دور میں رفاہی، تجارتی اور رہائشی پلاٹوں کا بلدیہ کی کونسل کی منظوری سے نہ صرف اسٹیٹس تبدیل کیا گیا بلکہ ضرورت مندوں کے نام پر غیر مستحق لوگوں کو یہ الاٹ کیے گئے۔ سٹی گورنمنٹ کا دور2009ء میں پورا ہوگیا تھا، لیکن جب یہ دور ختم ہوا تو حکومت نے اپنی پسند کے افسران کو تعینات کرنے کے ساتھ ان اداروں پر اپنی گرفت نہ صرف مضبوط کی بلکہ بلدیہ عظمیٰ اور کے ڈی اے کے کئی محکموں کو اپنے کنٹرول میں کرلیا۔ دراصل ایڈمنسٹریٹرز کا دور ہی شہری اداروں کی تباہی کا دور تھا۔
بلدیہ عظمیٰ کو جن افسران نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اُن میں 1990ء کی دہائی میں حکومتِ سندھ کے محکمہ جنگلات سے ڈپوٹیشن کی بنیاد پر کے ایم سی میں آنے والا اور بعدازاں کسی طرح اپنی ملازمت یہاں پر ہی ضم کرانے میں کامیاب ہونے والا فارسٹ افسر بھی ہے۔ گریڈ 16میں کے ایم سی میں آکر اپنی ملازمت ضم کرواکر اب گریڈ 20 میں پہنچنے والے اس افسر نے سب سے زیادہ فوائد سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے آخری دور میں اٹھائے اور آج بھی اٹھا رہا ہے۔ مذکورہ افسر بلدیہ کراچی کا وہ نرالا افسر ہے جو سابق ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی بریگیڈیئر عبدالحق کے دور میں برطرف ہونے کے باوجود کسی طرح ملازمت پر بحال بھی ہوگیا ہے بلکہ کم ازکم تین سال کی تنخواہوں کے مساوی بقایا جات بھی کامیابی سے وصول کرچکا ہے۔ اس افسر کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے خلاف اب کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریز کرتا ہے، کیونکہ کسی طرف سے ایکشن کے خدشات پر ہی یہ افسر وہاں کے ذمے داروں کے منہ بند کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ افسر جس قدر تعلیم یافتہ اور صلاحیتوں والا ہے، کے ایم سی میں ایسا کوئی دوسرا افسر نہیں ہے۔
باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ کے ایم سی سے افسران کی تعلیمی اسناد اور دیگر دستاویزات چیک کی جائیں تو 93 فیصد ایسے نکلیں گے جن کی اسناد جعلی ہوں گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کے ایم سی کے کسی افسر کا سروس ریکارڈ محکمہ ایچ آر ایم کے پاس موجود نہیں ہے۔ افسران کی سروس بک اور پرسنل فائل وہ خود ہی اپنی تحویل میں رکھتے ہیں اور کوئی ’’ مائی کا لعل‘‘ ایسا نہیں ہے کہ جو ان افسران سے یہ اہم ترین دستاویزات لے سکے۔
کے ایم سی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس ادارے کے افسران کی بڑی تعداد دہری شہریت کی حامل ہے۔ دہری شہریت کے حصول کا سلسلہ بھی محکمہ جنگلات سے کے ایم سی میں آکر ’’سیٹ ‘‘ ہوجانے والے مذکورہ افسر نے کیا تھا، جس کے بعد اب کئی افسران کینیڈا، نیوزی لینڈ اور امریکا کی شہریت رکھتے ہیں۔ کے ایم سی محکمہ فنانس میں تعینات فرحان درانی پانچ سال کی چھٹی لے کر ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ اُن کے جانے کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ کے ایم سی کے خزانے کو تین ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس قدر بڑی جعل سازی کے باوجود کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دنوں بھی ایک سابق سینئر ڈائریکٹر ایچ آر ایم و ڈائریکٹر امپلی منٹیشن کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
دہری شہریت کے حامل افسران میں بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے طویل چھٹیاں گزارنے کے بعد ساٹھ، ساٹھ اور پچاس پچاس لاکھ روپے تک تنخواہوں کی مد میں متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے وصول کیے۔ ان میں ایک افسر ایک سال قبل تک ڈائریکٹر لینڈ مینجمنٹ کی اسامی پر تعینات ہوکر دوبارہ رخصت پر ملک سے باہر جاچکا ہے۔
اگر کوئی دونوں ہاتھوں سے ادارے کو لوٹنے کا منظر دیکھنا چاہتا ہو تو اسے کے ایم سی کے نظام کو سمجھنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے اس سسٹم کا حصہ بننا ہوگا۔ گھبرائیں نہیں یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ ان دنوں بھی کے ایم سی میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ کیپٹن فہیم نامی ایک شخص سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود کے ایم سی میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر مسلسل تین سال سے بحیثیت کوآرڈی نیٹر خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ شخص ان دنوں اُس میئر کا کوآرڈی نیٹر ہے جسے اعزازیے کی مد میں صرف 50 ہزا ر روپے اور گاڑی ملی ہوئی ہے۔ یہ کوآرڈی نیٹر کیا کرتے ہیں اس کا تو علم نہیں ہوسکا، تاہم یہ پتا چلا ہے کہ انہیں کے ایم سی میں تقرری کے فوری بعد محکمہ باغات میں اسی عہدے پر ذمے داریاں دی گئی تھیں۔ یہ تو ہیں تین سال پرانے کوآرڈی نیٹر۔ اب بات کرتے ہیں اُن تین افراد کی جنہیں میئر کراچی وسیم اختر نے بحیثیت معاون خصوصی، مشیر اور کوآرڈی نیٹر مقرر کیا ہے۔ ان میں ایک سابق سیکریٹری غلام عارف ہیں جو کے ایم سی میں ڈائریکٹر لینڈ اور دیگر اسامیوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جبکہ باقی دو افراد میں پی ٹی وی سے ریٹائر ہونے والے حیدر امام رضوی اور میر جاوید اقبال شامل ہیں۔ ان تینوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ اعزازی طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تاہم کے ایم سی کی جانب سے انہیں سرکاری گاڑیاں مع ڈرائیور دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تینوں نہ تو کونسلر ہیں اور نہ ہی حکومتِ سندھ کی جانب سے مقرر کردہ افسران۔ اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس میئر کو انتظامی اور مالی امور کے اختیارات ہی حاصل نہیں ہیں کیا وہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی بحیثیت مشیر یا کوآرڈی نیٹر بلدیہ میں تعینات کرسکتا ہے؟ اطلاعات کے مطابق پی ٹی وی کے ریٹائرڈ افسر کو میئر نے اپنا میڈیا کوآرڈی نیٹر بنایا ہوا ہے، جن کی موجودگی میں بلدیہ کی سو روزہ صفائی مہم کا میڈیا نے تماشا بنایا تھا۔
کے ایم سی کا ایک محکمہ میونسپل یوٹیلٹی چارجز ٹیکس بھی ہے۔ یہ محکمہ منتخب قیادت کے بعد سے کچھ زیاہ ہی فعال نظر آرہا ہے۔ سابق سٹی ناظم کے آخری دور میں قائم کیے گئے اس محکمے کو آمدنی بڑھانے کے نام پر کچھ اس طرح سرگرم کیا گیا ہے کہ وہ آمدنی بڑھانے کے لیے قانونی اور غیر قانونی اقدام کی تمیز بھی کھو چکا ہے۔ اس محکمے کا عملہ سینئر ڈائریکٹر رضا عباس رضوی کی نگرانی میں ٹیکس کے حصول کے لیے دکانوں، شورومز اور ریسٹورنٹس کے داخلی راستوں کو توڑ کر یا تقصان پہنچاکر ان کی خوبصورتی کو خراب کردیا کرتا ہے۔ اس کارروائی کا مقصد ان پر دباؤ ڈالنا یا انہیں بلیک میل کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سینئر ڈائریکٹر رضا عباس نے بتایا ہے کہ نوٹس کے اجراء کے بعد ٹیکس کے حصول کے لیے ان کے پاس ایک یہی طریقہ رہ جاتا ہے جس پر عمل کرکے گزشتہ تین ماہ کے دوران مختلف کاروباری اداروں سے وہ مجموعی طور پر 16کروڑ روپے کی وصولی کرچکے ہیں۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ اس طرح کی کارروائی پر بہت سارے ادارے عدالت سے رجوع کرچکے ہیں جبکہ متعدد اب اسی طرح کی قانونی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ محکمہ ایم یو سی ٹی کے پاس نادہندگان سے ٹیکس کی وصولی کا قانونی طریقہ بھی موجود ہے، جس کے تحت کے ایم سی کے مشیر مالیات کو حکومت نے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے خصوصی اختیارات دیے ہوئے ہیں۔ تاہم مذکورہ محکمہ جلد سے جلد وصولیابی کے لیے خود کے ایم سی کی جانب سے عارضی تزئین و آرائش اور خوبصورتی کے لیے دی جانے والی اجازت کو نظرانداز کرکے توڑ پھوڑ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ سب کچھ منتخب قیادت کے دور میں کیا جارہا ہے جس سے کراچی میں وسیع پیمانے پر کی جانے والی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ محکمے کا سربراہ وہی افسر ہے جس نے المرکز اسلامی پر غیر قانونی قبضہ ختم کرانے کے لیے کے ایم سی کے بھاری مالی معاوضے کے عوض وکیل کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن پھر بھی وہ مقدمہ جیت نہ سکا تھا۔ محکمہ قانون کی موجودگی میں پرائیویٹ وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔ شبہ ہے کہ اس افسر سے کسی کو تو فائدہ پہنچتا ہوگا جو مسلسل اسی کو اہم عہدوں پر تعینات کرتے ہیں۔
کے ایم سی کا ہر محکمہ ان دنوں مصروف ہے، اس کے کسی افسر کے پاس عام افراد سے گفتگو کرنے کا بھی وقت نہیں ہے، مگر اس کے باوجود یہ محکمہ مسلسل خسارے سے دوچار ہے۔ ’’ماہانہ کم ازکم 15لاکھ روپے کے عوض کرائے پر بنگلہ حاصل کرکے وہاں دفتر قائم کردیا جائے‘‘ یہ افسران اس طرح کی تجویز پیش کرتے ہوئے لیاقت آباد سپر مارکیٹ میں موجود اپنی چار منزلہ عمارت کو ہی بھول جاتے ہیں جو 30 سال گزرنے کے باوجود 90 فیصد غیر آباد ہے۔ کے ایم سی کے محکمہ میونسپل سروسز اور محکمہ انٹرپرائزز و انویسٹمنٹ کو بھی اس عمارت پر توجہ دینے کا خیال نہیں آتا، حالانکہ یہ عمارت مین لیاقت آباد میں بازار اور مین روڈ کے ساتھ واقع ہے۔