کچرے کی سیاست نے حکومت کا ’’کوڑا‘ کردیا!۔

216

کہا جاتا ہے کہ ’’نیت صاف تو منزل آسان‘‘۔ مگر جہاں نیت ہی بدعنوانی اور لوٹ مار کی ہو وہاں مقصد اور منزل کیسے درست ہوسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی خصوصی دلچسپی کے نتیجے میں سندھ اسمبلی سے قانون سازی کے تحت قائم کیے جانے والے ’’سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ‘‘ کو فوری ختم کرنے کا حکم دیدیا۔ اس بورڈ کا قیام سندھ اسمبلی سے دس فروری 2014 کو منظور کیے گئے ’’سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ایکٹ 2014 کے تحت کیا گیا تھا۔ جس کی منظوری گورنر سندھ نے 7مارچ 2014 کو دی۔ لیکن تین سال بعد اس ادارے کو عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے بند کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اپنے 64 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ ’’یہ ادارہ کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن اس مقصد میں ناکام ہوچکا ہے‘‘۔
سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ حکومت نے کیوں قائم کیا تھا اور اس میں کیوں ناکام ہوا۔ اس بارے میں کالم کے آغاز میں لکھا جاچکا ہے۔ صفائی ستھرائی اور کچرے کو اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا م دنیا بھر میں بلدیاتی یا مقامی اداروں کی ذمے داریوں میں شامل ہوتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی تھا۔ مگر سیاست اور حکومت کے نظام میں جب بدنیتی شامل ہوجائے تو حکمراں کچرے کی سیاست سے بھی دور نہیں رہنا چاہتے۔ جس کا عملی اظہار سندھ حکومت نے کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بورڈ کے ذریعے چائنا کی کمپنی کوکچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے کام کے ٹھیکے کا کیا ہوگا؟ جو بلدیہ جنوبی اور بلدیہ شرقی کو معاہدے کے نتیجے میں دیا گیا تھا۔ چوں کہ کچرا اٹھانا، ٹھکانے لگانے اور صفائی ستھرائی کی بنیادی ذمے داری بلدیاتی اداروں کی ہے لیکن بلدیاتی اداروں کے امور میں حکومت نے بے جا مداخلت کرکے دراصل منتخب بلدیاتی نمائنددوں کے اختیارات اور امور چھیننا چاہتی تھی۔ لیکن تین سال گزرنے کے باوجود مذکورہ ادارے نے وہ کارکردگی نہیں دکھائی جس کے دعوے کیے جارہے تھے۔ چائنا کی کمپنی بلدیہ جنوبی کے مختلف علاقوں میں کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے رواں ماہ مختلف مقامات پر ڈسٹ بن رکھ چکی ہے۔ لیکن ڈسٹ بن رکھنے سے کچرا نہیں اٹھتا اور نہ ہی صفائی ستھرائی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بلاشبہ درست اور شہریوں اور شہروں کے مفاد ہے۔
یاد رہے کہ بلدیاتی انتخابات کے فوری بعد حکومت سندھ نے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم سمیت مختلف سیاسی جماعتوں اور منتخب بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھینے جانے کی شکایات کا نوٹس لیا ہے اور اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) کے دائرہ کار کے بارے میں میئر اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کراچی کے چیئرمینوں کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ان کی منظوری ہی سے اس ادارے کو فعال کیا جائے گا۔ اس سے قبل سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو چلانے کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور کراچی کی ضلعی میونسپل کارپوریشنوں سمیت صوبے بھر کے تمام بلدیاتی اداروں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے اور اس کو ٹھکانے لگانے کی ذمے داریاں لے کر ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے حوالے کردیے گئے تھے۔ مذکورہ ادارے کو اکتوبر 2015 سے اپنی ذمے داریاں سنبھالنی تھیں۔ تاہم بورڈ کے فنکشنل ہونے کے باوجود سیاسی مسائل کی وجہ سے شہروں سے کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کام بورڈ شروع نہیں کرسکا۔ جس کی وجہ سے روز بروز گلی محلوں میں گندگی غلاظت میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔
حکومت نے اس وقت یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ اگر منتخب قیادت نے سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ امور کے حوالے سے کی جانے والی وضاحتوں کو تسلیم نہیں کیا تو بورڈ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ان فیصلوں کے باوجود حکومت نے منتخب بلدیاتی رہنماؤں کے اعتراض کے باوجود ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ چائنا کمپنی سے معاہدہ بھی کرلیا۔ جمہوری نظام میں بنیادی جمہوری نمائندوں کی رائے کے بغیر کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے یہی نتائج نکلتے ہیں جو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ایس ایس ڈبلیو ایم بی کی بندش کا نکلا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس ادارے کے ختم ہونے سے کوئی بیروزگاری نہیں ہوگی کیوں کہ ادارے کے تقریباً دوہزار ملازمین و افسران کی خدمات ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر حاصل کی گئی تھیں۔ البتہ عارضی بنیادوں یا کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے تقریباً دوسو افراد پریشان ہوسکتے ہیں۔ امید ہے کہ انہیں بلدیاتی اداروں میں ایڈجسٹ کردیا جائے گا۔
سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اپنے امور کی ادائیگی میں ناکام ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ کے حکم سے ختم کیا جارہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے عدالت عظمیٰ کے حکم پر صوبے کا محکمہ اسپیشل انیشیٹیوز (Special Initiatives Department.) کو عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد بند کیا جارہا ہے۔ لیکن سندھ احتساب بیور و وہ ادارہ ہے جو قائم ہونے سے پہلے ہی ختم کردیا گیا۔ اس کا مقصد صوبائی اداروں میں ہونے والے کرپشن کے مقدمات کو خود ہی نمٹا دیا جانا تھا۔ دومحکموں کی بندش اور ایک ادارے کے قیام کے فیصلے کو موخر کیے جانے سے صوبائی حکومت کی اہلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے قیام کے لیے جو وزراء سرگرم رہے، جن کی تجویز پر یہ قائم کیا گیا اور جو اس کے ذمے دار وزیر رہے کیا ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی کی جائے گی؟ قوم کو بلاوجہ ہی حکمرانوں سے توقع ہے کہ شاید وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرہی لیں گے۔ حکمرانوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کچرے کے ایشو پر انہوں نے جو سیاست کی اور صوبے کے بلدیاتی امور میں مداخلت کرکے ان سے یہ امور چھیننے، اس میں ان کو بری طرح ناکامی ہی نہیں بلکہ بدنامی بھی ہوئی ہے۔ اس لیے آئندہ مزید کسی بلدیاتی امور کو اپنے ذمے لینے کا تصور بھی نہ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ جب کہ جو امور بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگراداروں سے لیے جاچکے ہیں انہیں دوبارہ ایس ایل جی او 1979 کے مطابق بحال کردیا جائے۔