برطانوی وزیرخارجہ نے ماسکو کا دورہ منسوخ کر دیا

218

شام میں کیمیائی حملے کے بعد برطانیہ کے وزیر  خارجہ بورس جانسن نے ماسکو کا دورہ منسوخ کردیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق بورس جانسن نے پیر کو ماسکو کا دورہ کرنا تھا تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ صورتحال بنیادی طور پر تبدیل ہوچکی ہے اور ان کی ترجیح جنگ بندی کے حوالے سے بین الاقوامی مدد کی فراہمی کے لیے امریکہ کے ساتھ رابطے قائم رکھنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے روس سے شام میں سیاسی حل کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم روس کی جانب سے اسد حکومت کے مسلسل دفاع کی مذمت کرتے ہیں۔

دوسری جانب امریکی  وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن طے شدہ منصوبے کے تحت 10 اور 11 اپریل کو ماسکو میں منعقد ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔تاہم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ ‘آئندہ لائحہ عمل’ کے لیے ہم خیال پارٹنرز کو متحد کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا تھا کہ امریکہ شام کے فضائی اڈے پر حملوں کے روسی ردعمل سے مایوس ہے لیکن حیران نہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا ‘میں روسی ردعمل سے مایوس ہوا ہوں۔ اس سے یہ بات صاف ہے کہ روس بشار الاسد کی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور خاص طور پر اس وقت جب شامی حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اندوہناک کارروائیاں کی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا: ‘اس لیے میں کافی مایوس ہوں لیکن افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔’اس سے قبل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں امریکہ نے کہا کہ امریکہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شام دوبارہ کبھی کیمیائی ہتھیاروں کو استعال نہ کر سکے جبکہ روس نے امریکہ کو شام پر دوبارہ میزائل حملہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کی تنبیہ کی ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ امریکہ نے شام کے اس فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جس پر شبہ ہے کہ وہاں سے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔امریکی سفیر نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کو بتایا ‘ہم مزید حملوں کے لیے تیار ہیں تاہم امید ہے کہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

‘نکی ہیلی کے مطابق ‘یہ ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ ہم کیمیائی ہتھیاروں کے پھیلا وکو روکیں۔’واضح رہے کہ امریکہ نے شام میں باغیوں کے زیرِ اثر علاقوں میں شامی فوج کی جانب سے مشتبہ کیمیائی حملے کے جواب میں جمعے کی صبح مشرقی بحیر روم میں موجود اپنے بحری بیڑے سے 59 ٹاما ہاک کروز میزائلوں سے شام کے ایک فضائی اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں روس نے امریکہ کو شام پر دوبارہ میزائل حملہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کی تنبیہ کی۔

روس کے نائب سفیر ولادمیر سفکرونوف کا کہنا تھا کہ ‘آپ کو سخت نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اس کی تمام ذمہ داری ان لوگوں کے کندھوں پر ہو گی جنھوں نے یہ حملے کیے۔’ اس سوال کے جواب میں کہ وہ سخت نتائج کیا ہوں گے، ولادمیر سفکرونوف نے کہا: ‘لیبیا کو دیکھیں، عراق کو دیکھیں۔

دوسری جانب انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام میں فوجی کارروائی بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتی ہے۔عالمی ریڈ کراس کی ترجمان نے کہا ‘ایک ملک کی طرف سے دوسرے ملک کی رضا مندی کے بغیر فوجی کارروائی انٹرنیشنل آرمڈ کانفلکٹ یعنی بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتی ہے۔’اطلاعات کے مطابق امریکہ نے شامی فوجی تنصیب پر حملہ کیا اور یہ بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتا ہے۔

‘ان حملوں کے بعد بشار الاسد کے حامی روس نے ان حملوں کی مذمت کی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے ان حملوں کو ‘ایک خود مختار ملک کے خلاف جارحیت’ قرار دیا۔روس کے دفتر خارجہ نے کہا ‘یہ صاف ظاہر ہے کہ امریکی میزائل حملوں کی تیاری پہلے ہی سے کی گئی تھی۔ کسی بھی ماہر کے لیے یہ واضح ہے کہ واشنگٹن نے حملوں کا فیصلہ ادلیب کے حملے سے پہلے کیا تھا اور ادلیب کا واقعہ بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

روسی دفتر خارجہ نے شام کے فضائی اڈے پر امریکی حملے کے بعد امریکہ کے ساتھ شام میں فضائی تحفظ کے معاہدے کو معطل کردیا۔یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان کیا گیا تھا تاکہ دونوں ملکوں کی فضائیہ شام کی حدود میں ایک دوسرے کو نشانہ نہ بنائیں۔