’’پرنٹ میڈیا زوال کا شکار ہورہا ہے، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے‘‘۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار جملے ہم سنتے اور بولتے رہتے ہیں۔ میڈیا ایک زبان زدِ عام لفظ ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ میڈیا دراصل کیا ہے؟
میڈیا کا لفظ ’’میڈیم‘‘ سے نکلا ہے، جس کے معنی ذریعہ یا رابطہ، یا لے جانے والے کے ہیں۔ ابلاغِ عامہ کے لیے استعمال کیے جانے والے تمام ذرائع میڈیا ہیں۔ آج کل دنیا قریب آچکی ہے، رابطے آسان ہیں۔ اس حساب سے میڈیا کی بھی بے شمار اقسام وجود میں آچکی ہیں۔
وائس میڈیا یا صوتی تعلق کے ذرائع میں ہم ٹیلی فون، موبائل، ریڈیو، نیٹ پر شامل کی گئی آواز کی ریکارڈنگ۔۔۔ غرض صوتی پیغامات کے تمام تعلق شامل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا میں اخبار، میگزین، کتب سے لے کر بل بورڈ اور بروشر تک شامل ہیں۔ پھر الیکٹرانک میڈیا یعنی فلم، ڈرامے، وڈیوز وغیرہ، اور سوشل میڈیا میں باہم رابطے کی تمام ویب سائٹس آجاتی ہیں۔ میڈیا کے ان تمام ذرائع میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ عوام تک معلومات پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ دراصل عوام کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ آپ گاڑی میں سفر کررہے ہیں لیکن ریڈیو پر آپ کو کسی جگہ ٹریفک جام کا علم ہوا اور آپ نے وہیں اپنا روٹ بدل لیا۔ ملازمت کی تلاش سے لے کر گاڑی، گھر، حتیٰ کہ کپڑوں، جوتوں کی خرید و فروخت میں بھی میڈیا آپ کی مدد کرتا ہے۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی میڈیا نے اپنی فوجوں کا مورال بڑھایا، تو ترکی میں وہاں کے عوام میڈیا میں بروقت خبر پہنچنے سے طیب اردوان کا اقتدار بچانے نکلے۔ میڈیا کو گھر بیٹھے عوام کا شعور بیدار کرنے اور انہیں تعلیم و ہنر سے آراستہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ پاکستان میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے ریڈیو چینل، ویڈیو ریکارڈنگ، ویب سائٹ اور کتب کی مدد سے کام کررہی ہے۔ کسی خاص مسئلے پر عوامی آراء جاننے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے بھی میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اپنی مصنوعات کی تشہیر اور سیاحت کے فروغ کے لیے بھی میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر کونے کی معلومات انگلی کی دسترس میں ہونے کے باوجود، میڈیا کو جمہوریت کا ستون قرار دینے کے باوجود ہم میڈیا کے منفی استعمال اور لاتعداد نقصانات سے انکار نہیں کرسکتے۔ ہمارے ملک میں میڈیا وہ خرانٹ بیل ہے جو قابو سے نکلتے ہی سب سے پہلے اپنے مالک کو ٹکر مارتا ہے۔ ہمارا میڈیا ناکام تو 1971ء میں ہی ہوگیا تھا جب ہم انڈین پروپیگنڈے کا مقابلہ نہ کرسکے اور دنیا بھر میں ہماری افواج کا مورال ڈاؤن کیا گیا، ان پر قتل و غارت اور عصمت دری کے غلط الزام لگائے گئے، جس کا اعتراف اب خود انڈین مصنفین کرتے ہیں۔ میڈیا کا مقصد عوام میں شعور پیدا کرنا اور انہیں ملکی و عالمی حالات سے باخبر رکھنا ہے، لیکن ہمارے ملک کا میڈیا تفریح کے نام پر بدیسی ثقافت دکھاتا ہے۔ ہمارے بچے دیگر ممالک کے کارٹون دیکھتے ہیں اور انہی کے گن گاتے ہیں۔ ایک طرف بے حیائی و فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے تو دوسری طرف خبروں کے نام پر سنسنی اور ہیجان پھیلایا جارہا ہے۔ ریٹنگ کے چکر میں کبھی براہِ راست قومی سلامتی کے اداروں پر کیچڑ اچھال کر ان کی ساکھ خراب کی جاتی ہے، تو کبھی آزادئ اظہار کے نام پر یہ نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ ہم ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں رہتے ہیں، اسلام یہاں کا سرکاری مذہب ہے۔
ہمارا میڈیا ملک میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی برائی کو محدب عدسے سے دکھاتا ہے، اور یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتا ہے کہ پاکستان میں اچھائی ناپید ہے، تب ہی دنیا میں سب سے زیادہ بم دھماکے پورے سال میں انڈیا میں ہوئے لیکن وہ پُرامن کہلایا، اور سب سے زیادہ ریپ کیسز رجسٹر ہونے کے بعد بھی امریکی شہری قانون پسند کہلائے۔ جب کہ ہمارے بے شعور میڈیا کی بدولت ملک میں مایوسی اور نامیدی پھیلی اور سرمایہ کاروں کے لیے ہمارا ملک غیر محفوظ کہلایا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈال کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینی چاہئیں، بلکہ ہمیں ماہر نفسیات کے بتائے ہوئے سینڈوچ تکنیک کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے عوام کو برائی سے آگاہ کرتے ہوئے کچھ مثبت چیزیں، کوئی حل، کوئی امید کی روشن کرن چھوڑنی چاہیے تاکہ ان میں کچھ کرنے کی لگن پیدا ہو۔ وہ ملکی ترقی کی کوشش کریں۔
میڈیا وہ تلوار ہے جس کا درست استعمال آپ کو ہاری ہوئی جنگ بھی جتوا سکتا ہے اور اس سے آپ خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اس مسئلے پر ایکشن لے اور ملکی مفاد میں باقاعدہ درست پالیسی بنائی جائے۔ میڈیا سے منسلک لوگوں کی تربیت کے لیے سیمینار اور ورکشاپس منعقد کی جائیں تاکہ انہیں ملکی آزادئ اظہار اور ملکی سالمیت پر حملے میں فرق بتایا جاسکے۔ عوام میں شعور اجاگر کیا جائے تاکہ وہ لکیر کے فقیر نہ بنیں بلکہ سوشل میڈیا کی طاقت سے ملکی مفاد کی خاطر دنیا کو پاکستان کا خوبصورت چہرہ دکھائیں۔ یاد رکھنے والی بات ہے کہ ہم اور آپ ہی میڈیا ہیں اور ہم ہی پاکستان ہیں۔ اگر ہم خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزریں گے تو کچھ بھی درست نہیں ہوگا۔
nn