حکومت لوڈ منیجمنٹ پلان 2016-2018 ء پر عملدرآمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے

118

اسلام آباد (آن لائن) حکومت لوڈ منیجمنٹ پلان 2016-2018 ء پر عملدرآمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ حکومت نے اگست 2016 ء کے اجلاس میں لوڈ شیدنگ منیجمنٹ پلان دیا تھا جس کے تحت ملک کے 23 بڑے شہروں کو لوڈشیڈنگ فری بنانا جبکہ دیگر شہری علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 6گھنٹے سے کم کرکے 3گھنٹے اور دیہی علاقوں کا دورانیہ 8گھنٹوں سے کم کرکے 4گھنٹے کرنا تھا۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں بجلی کی ڈیمانڈ میں سالانہ 4فیصد اضافہ ہوتا ہے اور موجودہ حکومت سالانہ 5فیصد سے زائد بجلی سسٹم میں شامل کررہی ہے ۔جون 2018ء عام الیکشن سے قبل ہی ملک میں 1204 میگاواٹ اضافی بجلی ہوگی اگر طلب بڑھ گئی تو 504 میگاواٹ اضافی بجلی سسٹم میں موجود رہے گی تاہم یہ تمام تر وعدے اور دعوے ہوا میں اڑ گئے۔ ملک میں رواں سال اپریل سے قبل ہی طویل غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے اقرار کیا کہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری رہے گا جس پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔ دوسری جانب پانی و بجلی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم نہیں ہوسکتا مشرف دور میں بجلی کا شارٹ فال 6000 میگاواٹ تھا وہ آج بھی 6000 میگاواٹ ہے اگر کچھ ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آئی بھی ہے تو اتنی ہی بجلی کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے ۔ بجلی کے شروع کیے گئے منصوبے 2020 سے قبل مکمل ہونا ناممکن ہیں ۔رواں سال بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ گزشتہ برس کے برابر ہی ہوگا جبکہ سندھ جنوبی پنجاب ‘ کے پی کے اور بلوچستان سمیت کچھ دیگر علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کہیں زیادہ ہوگا۔