ماہ اپریل اپنی یکم تاریخ سے ہی ایک شہرت رکھتاہے عرف عام میں لو گ اسی لئے اس کو اپریل فول کہتے ہیں۔جسے ہم یوں کہہ سکتے ہے کہ یہ ایسا دن جسے لوگ بے وقوف بنانے کے دن کے طورپر جانتے ہیں۔بلکل اسی طرح سے ہے کہ ملک خداداد میں زمین کادن ، محبت کادن، مزدوروں کا دن، ماں کا دن، والدین کادن مناتے ہے اور پھران سب رشتوں کی اہمیت اورافادیت کو بالاطاق رکھ کراپنی روش میں ان ایام کی توہین کاباعث بنتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارا موضوع ان ایام کی تاریخ و تفصیل بیان کرنانہیں ہے اس لئے اسے ہم یہیں ختم کرتے ہوئے اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں۔
پاکستان کامحنت کش موجودہ دورمیں جتنا پریشان اوربدحال ہے پاکستانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں رہا۔بلخصوص صوبہ سندھ جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت پچھلے 28 برس سے حکومت پر کسی نہ کسی صورت میں براجمان رہی ہے ۔اس کا یہ دعوی بھی ہے کہ یہ ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے طرزحکمرانی کی علمبردارہے ۔جس کا منشورغریبوں،محنت کشوں کے حقوق کی ضمانت کے ساتھ ساتھ اُن کو خوشحال زندگی فراہم کرنابھی ہے ۔لیکن آج کے دور کے پیپلز پارٹی کے لوگوں کا طرزحکمرانی دیکھ کرہمیںیہ یقین ہوتاہے کہ محترم ذوالفقارعلی بھٹوصاحب لحد میں اس شعرکے مانند کہہ رہے ہوں گے کہ ’’ہمیں کیا جوتربت پہ میلے ہوں گے۔ہم تو تہہ خاک اکیلے ہونگے‘‘
ذوالفقار علی بھٹوکی برسی پر پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت نے سندھ کے مزدوروں کے ساتھ جومذاق کیاہے وہ یہ کہ تمام ٹی وی چینلز پر بھٹوصاحب کی برسی پر عام تعطیل ہوگی اوریہ اشتہار/ٹیکرز30 مارچ سے مسلسل برسی کے دن تک چلایاجاتارہا اورجس میں یہ نعرہ بھی بسا اوقات ناظرین نے دیکھا۔کہ ’’زندہ ہے بھٹوزندہ ہے ‘‘اس میں کوئی شک نہیں سندھ کے محنت کش ذوالفقارعلی بھٹوکے طرزحکمرانی کے مداح رہے ہیں۔اورسندھ سے سیکڑوں بسیں محنت کشوں کی لاڑکانہ گڑھی خدابخش بھٹوبرسی کے پروگرام کیلئے جاتی ہیں۔اوراپنی عقیدت کامحنت کش اظہارکرتے ہیں۔
لیکن انہیں یہ جان کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ سندھ حکومت کی طرف سے لیبرسیکریٹری سندھ نے چھٹی کانوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔ اسی طرح سے بے نظیر بھٹو کی برسی پر بھی محنت کشوں کو بری طرح مایوسی ہوئی تھی ۔اعلان کے باوجود چھٹی کا سرکلر لیبرسیکرٹری نے جاری نہیں کیاتھا۔اورمحنت کش محترمہ بے نظیر بھٹوکی برسی پر لاڑکانہ گڑھی خدابخش جانے سے محروم کردئیے گئے تھے ۔ سارا دن محنت کش یہ ہی تگ ودو کرتے رہے کہ کسی طرح سے حکم نامہ جاری ہو اورہم برسی میں شرکت کرسکیں لیکن ان کی یہ تمام خواہش اُس وقت دم توڑگئی جب لیبرسیکریٹری نے ٹکا ساجواب دے کرانکارکردیاکہ چھٹی کاحکم نامہ جاری نہیں کیاجاسکتا اورمجھے وزیراعلیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ملاکہ میں سرکلر جاری کروں۔
ذوالفقارعلی بھٹوکے دورحکومت میں یقیناًبہت کچھ سہولیات ومراعات محنت کشوں کو دی گئیں ۔جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ جس میں E.O.B.I ،سوشل سیکورٹی ،ورکرزویلفیئربورڈ،چھٹیاں،انشورنس ،ڈیتھ گرانٹ ،جہیز گرانٹ،اسکالرشپ ،کورس کی کتابیں، پیپلز پارٹی اورذوالفقار علی بھٹو کی نمایاں خدمات کے طور پر محنت کشوں میں جانی جاتی ہیں ۔اسی لئے وہ آج تک اس نعرے کے فریب میں آتے رہے ہیں کہ’’ زندہ ہے بھٹوزندہ ہے ‘‘
لیکن کیاآج کی پیپلز پارٹی جو ذوالفقار علی بھٹوکے نام اورطرزحکمرانی کو اپنا طرہ امتیاز کہتی ہے وہ اس نعرے پر پورا اترتی ہے تو محنت کش بہ یک آواز ہوکہ یہ بات کہیں گے کہ نہیں ہرگزنہیں یہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کی روح اوران کے مزار کے سوداگرہیں۔یہ نام تو بھٹو کا لیتے ہیں لیکن انعام اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں۔ یہ وزارتیں لینے کیلئے پیپلز پارٹی میں آتے ہیں اورمزے اپنی ذات اوراپنے گھروالوں کو کراتے ہیں۔غریب محنت کش ان کے فریب میں آتاہے اورچنددن کھانا کھلانے کے بعد یہ فریبی حکمران اُن سے ووٹ لیکر ایسا دھوکا اورفریب کرتے ہیں کہ وہ غریب اپنے اوراپنے بچوں کے نصیب کو روتاہے ۔
دراصل آج کی پیپلز پارٹی بھٹوکے افکارسے بہت دور چلی گئی ہے اب یہ وڈیروں،جاگیرداروں اورسرمایا داروں کی پارٹی بن گئی ہے ۔ان کا غریب محنت کشوں سے کچھ لینا دینا نہیں یہ محنت کشوں کو جذباتی کرنے کیلئے’’ زندہ ہے بھٹوزندہ ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اوراس طر ح سے بھٹو کے افکار،مزار،روح، جسم اورکردار کو فروخت کرتے ہیں اپنی وزارت سے خوب جائیداد بناتے ہیں اورغریبوں کو سڑکوں اورگوٹھوں میں بے آسرا چھوڑکردھتکارر دیتے ہیں اورمذاقاًنعرہ لگاتے ہیں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ؟ ‘‘
جیسا کہ ہم اوپرکہہ چکے ہیں کہ بھٹو کی خدمات محنت کشوں کیلئے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ۔لیکن آج کی پیپلز پارٹی E.O.B.I میں غبن کرتی ہے اورکہتی ہے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ؟ ‘‘سوشل سیکورٹی میں غبن کرکے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ؟ ‘‘ویلفیئربورڈ میں خوردبردکرکے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ؟ ‘‘ تعلیمی وظائف ختم کرکے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘لاڑکانہ ترقیاتی فنڈکھاکر ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘ہاری اورکسان کو محروم کرکے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘ٹھیکیداری اورکنٹریکٹ نظام جاری کرکے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘برسی پر محنت کشوں کو چھٹی نہ دے کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘ سرمایاداروں کے ایجنٹ بن کر ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘غریبوں سے روٹی چھین کر’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘محنت کش کامعاشی ،سماجی ،سیاسی قتل کرکے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘
آخرمیں ہم محنت کشوں سے یہ بات ضرورکرنا چاہیں گے کہ آج کی پیپلز پارٹی بلکل تبدیل شدہ پارٹی ہے یہ بھٹو کی روح ،جسم ،قبر،مزارکو فروخت کرنے والے ہیں ان کے فریب میں نہ آؤ اورکسی قسم کے جذباتی نعروں سے متاثر ہوئے بغیراپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرو ۔اسی میں آپ کی اورآپ کے بچوں کی خوشحالی کاراز پنہاہے۔ورنہ تووہی حال ہوگا جو محنت کشوں کے ہردل عزیز مشیر محنت سعید غنی کی کہانی ہے کہ ایک بااختیار جیالا غریب مشیرمحنت کو چیلنج کرکے اس کے عہدے سے فارغ کروادیتاہے۔اور نعرہ بلند کرتا ہے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے؟ ‘‘سندھ کے محنت کشوں سے بھٹو شہید کی برسی پرجو ہتک آمیز رویہ رکھا گیا محنت کشوں نے ردعمل کااظہارکیا تو سندھ میں بھی مزار فروشوں کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اور انشااللہ اس ملک میں اہل ،دیانتدار،غریبوں،محنت کشوں سے حقیقی محبت کرنے والی ایماندار،خداکاخوف رکھنے والی قیادت اقتدارمیں آئے گی۔