(تربیت اولاد(مولانا محمد جہاں یعقوب

371

خاتم المرسلین شفیع المذنبین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد اور گھر والوں والوں کو خیر سکھاؤ اور با ادب بناؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کے اہل بیت کی محبت اور قرآن کریم کی تلاوت۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے کہ ہم اپنی اولاد کی بہتر تعلیم وتربیت کریں، یہی ان کے لیے سب سے قیمتی تحفہ وعطیہ ہے، کیوں کہ ہر تحفہ، ہدیہ اور جائیداد وغیرہ جو ہم اپنی اولاد کو دیں گے وہ اس دنیا تک محدود اور ایک دن ختم ہو جائے گی، لیکن صحیح تعلیم وتربیت ایسی لافانی وباقی رہنے والی چیز ہے، جس کا فائدہ ہماری اور ہماری اولاد کی زندگی ہی تک نہیں، بلکہ موت کے بعد بھی جاری رہے گا، کیوں کہ اولاد کی تربیت سے کئی نسلوں کی تربیت وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صادق نے اچھی اولاد کو صدقہ جاریہ میں شمار فرمایا ہے۔ فقہائے کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے بچہ جتنے بھی نیک اعمال کرتا ہے ان کا اجر اس کے والدین کو ملتا ہے، خواہ وہ اس کی نیت یا دعا کرے یا نہ کرے، اچھے زمانوں میں مسلمان کبھی اپنی اولاد کی درست اور دینی خطوط پر تربیت سے غافل نہ رہے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ اس قدر اہم فریضہ ہے کہ قیامت میں اس کے بارے میں باز پرس ہو گی کہ بچے کی کیا تربیت کی تھی؟
اس کی ایک جھلک ذیل کے واقعے میں دیکھی جاسکتی ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’آپ بیتی‘‘ میں لکھا ہے: ’’جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ماں باپ نے میرے لیے ایک چھوٹا سا خوبصورت تکیہ بنا دیا تھا، جیسا کہ عام طور پر بچوں کے لیے بنایا جاتا ہے، مجھے اس تکیے سے بڑی محبت تھی اور ہر وقت اس کو اپنے ساتھ رکھتا تھا، ایک دن میرے والد صاحب لیٹنا چاہ رہے تھے، ان کو تکیے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ ابا جی! میرا تکیہ لے لیجیے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنا تکیہ ان کو اس طرح پیش کیا جس طرح کہ میں نے اپنا دل نکال کر باپ کو دے دیا ہو۔ لیکن جس وقت وہ تکیہ میں نے پیش کیا اسی وقت والد صاحب نے مجھے ایک چپت رسید کی اور فرمایا: ابھی سے تو اس تکیے کو اپنا تکیہ کہتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ تکیہ تو درحقیقت باپ کی عطا ہے، لہٰذا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یا اپنا قرار دینا غلط ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس وقت تو مجھے بہت برا لگا کہ میں نے تو اپنا دل نکال کر باپ کو دے دیا تھا ،اس کے جواب میں باپ نے ایک چپت لگا دی، لیکن آج سمجھ میں آیا کہ کتنی باریک بات پر اس وقت والد صاحب نے تنبیہ فرمائی تھی اور اس کے بعد سے ذہن کا گویا رخ ہی بدل گیا۔‘‘ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ماں باپ کو نظر رکھنی چاہیے۔ تب جا کر بچے کی تربیت صحیح ہوتی ہے اور بچہ صحیح طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے۔