(عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات (شاہنواز فارقی

221

سلیم احمد نے کہا ہے؂
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہو جائیں گے
عیب کیسے ہنر بنتا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جنرل جاوید قمر باجوہ کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان تقریباً ایک گھنٹے کی ملاقات ہوئی، ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سرشاری کی کیفیت میں فرمایا۔
’’قوم کے لیے خوشخبری ہے جنرل باجوہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔
اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو سیاست دانوں اور جرنیلوں کے درمیان ملاقات ایک معیوب بات ہے۔ اس لیے کہ آئینی اعتبار سے سیاست دانوں کا اپنا دائرہ کار ہے اور جرنیلوں کا اپنا دائرہ کار لیکن ہمارے سیاست دان جرنیلوں کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور ان کے جوتے چاٹنے میں بھی لگے رہتے ہیں۔ ہم سیاست دانوں کو جرنیلوں کے پیچھے بھاگتے دیکھتے ہیں تو اکبر الٰہ آبادی کا شعر یاد آجاتا ہے۔ اکبر نے کہا ہے۔
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
ہمارے سیاست دان جرنیلوں کے ساتھ رہتے رہتے خود کو جرنیلوں کا اتحادی سمجھنے لگتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جرنیلوں کے غلام ہوتے ہیں۔ جرنیل جب چاہتے ہیں سیاست دانوں کو اپنے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کو قائد اعظم کے بعد سب سے مقبول سیاسی رہنما کہا جاتا ہے مگر بھٹو صاحب بھی جرنیلوں کی نرسری کا ایک پودا تھے۔ وہ جنرل ایوب کی کابینہ کے اہم رکن تھے اور وہ جنرل ایوب کو احتراماً ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ مگر بھارت کے ساتھ معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو صاحب کے سیاسی ڈیڈی نے انہیں کابینہ سے نکال باہر کیا۔ بھٹو صاحب کہتے رہے کہ وہ معاہدہ تاشقند کے ’’راز‘‘ عیاں کردیں گے مگر وہ یہ کارنامہ کبھی انجام نہ دے سکے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوگئی مگر جنرل یحییٰ اور بھٹو نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور بھٹو نے اقتدار کے لیے ایک سیاست دان کے خلاف جنرل یحییٰ سے اتحاد کرلیا۔ اس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی لیکن پھر جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور میں محدود اختیار کے حامل محدود اقتدار کو قبول کرکے جرنیلوں کی سیاسی بالادستی کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ NRO پر دستخط کیے۔ میاں نواز شریف کی کہانی سب ہی کو معلوم ہے۔ ان کی سیاست جرنیلوں کے سائے میں پروان چڑھی۔ وہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق کے بغیر کچھ بھی نہیں تھے۔ جنرل حمید گل کی اعانت کے بغیر وہ ملک کے وزیراعظم بھی نہیں بن سکتے تھے۔ اس بار ان کے ہاتھ میں بھاری مینڈیٹ ہے مگر وہ جنرل راحیل شریف کے آگے اتنے بے بس تھے کہ وہ جنرل پرویز جیسے کردار کو ملک سے فرار ہونے سے نہ روک سکے۔
عمران خان خود کو ’’مسٹر کلین‘‘ کہتے ہیں مگر وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں جرنیلوں کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ جنرل پرویز مشرف کے گن گارہے تھے۔ سیاست میں آئے تو جنرل پاشا اور جنرل راحیل شریف کی مہریں ان کے ماتھے پر لگ گئیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے دھرنا دیا تو وہ ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتے رہے اور امپائر جنرل راحیل کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ جنرل باجوہ سے ملاقات کے بعد انہوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ جنرل باجوہ کے سائے میں کھڑے ہیں۔ افسوس ’’مسٹر کلین‘‘ کو کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ جرنیلوں کے ساتھ ان کی ساز باز اخلاقی کرپشن ہے۔ سیاسی کرپشن ہے، جمہوری کرپشن ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کرپشن صرف مالی نہیں ہوتی۔ کرپشن کی اور بھی اقسام ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان بھی ایک کرپٹ سیاست دان ہیں۔ عمران خان اس سلسلے میں یہ تک سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ جرنیلوں کے سائے کی ضرورت ان سیاست دانوں اور ان جماعتوں کو ہوتی ہے جو عوام میں مقبول نہیں ہوتے۔ اتفاق سے عمران خان اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے بعد ملک کی دوسری مقبول جماعت ہے۔ اس اعتبار سے عمران خان اور ان کی جماعت کو جرنیلوں کے ساتھ پی آر کی ضرورت نہیں۔ مگر دوسرے سیاست دانوں کی طرح عمران خان بھی خود کو جرنیلوں کا نمک خوار ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تا کہ سند رہے اور بہ وقت ضرورت کام آئے۔ قومی سیاست کے لیے یہ ایک المناک بات ہے، ایسی المناک بات جس کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں میں چار بڑی برائیاں ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کی ایک برائی یہ ہے کہ ان میں خود تکریمی یا self respect نام کی نہیں ہے۔ سیاست دان سمجھتے ہیں کہ ہم خود اقتدار میں آنے کے اہل نہیں البتہ اگر جرنیلوں کے جوتے چاٹ لیے تو ہم پر اقتدار کے دروازے کھل جائیں گے۔ اور ایسا ہوتا بھی ہے مگر سیاست دانوں کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے خود تکریمی یا self respect کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس آدمی یا جس جماعت کی خود اپنی نظر میں کوئی عزت نہ ہو وہ قوم کو قوموں کی برادری میں کیا عزت دلائے گی؟۔
اقبال نے کہا ہے؂
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
مگر ہمارے سیاست دان اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے بجائے اپنی دنیا امریکا اور جرنیلوں سے پیدا کرواتے ہیں، کروانا چاہتے ہیں۔ چناں چہ ان کی پوری سیاسی تک و دو پر جرنیلوں کی مہریں لگی ہوتی ہیں۔ چوں کہ ہمارے سیاست دانوں کی دنیا جرنیلوں نے پیدا کی ہوئی ہوتی ہے اسی لیے جرنیل جب چاہتے ہیں اپنی دنیا کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کی تیسری برائی یہ ہے کہ وہ دن رات عوام، عوام کرتے رہتے ہیں مگر جرنیلوں کی چوکھٹ پر سجدے کرتے ہوئے انہیں خیال تک نہیں آتا کہ عوام انہیں اس حال میں دیکھ کر ان کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ چوں کہ عوام کی نگاہ میں سیاست دانوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی اس لیے جب سیاست دانوں کو اقتدار سے محروم کیا جاتا ہے تو عوام بھی صرف تماشائی بنے رہتے ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کی چوتھی بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہیں عوام کیا تاریخ تک کی فکر نہیں۔ حالاں کہ تاریخ ایسی چیز ہے جس کی پرواہ اچھے بادشاہوں تک کو ہوا کرتی تھی۔ وہ سوچتے تھے نہ جانے تاریخ ہمیں کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ مگر ہمارے سیاست دان صرف ’’آج کی زندگی‘‘ کی فکر کرتے ہیں۔ تاریخ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں۔
جنرل جاوید قمر باجوہ نے جس انداز میں عمران خان سے ملاقات کی ہے اس انداز میں یہ پیغام مضمر ہے کہ جنرل باجوہ تقریباً بابائے قوم یا father of the nation ہیں۔ اور وہ زندہ رحمتہ علیہ ہیں۔ عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات میں یہ پیغام بھی موجود ہے کہ ملک میں طاقت کا سرچشمہ فی الحال جنرل باجوہ ہیں اور فوج ملک کی سب سے بڑی، سب سے منظم اور سب سے اہم جماعت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان کرپٹ ہیں اور جرنیل انہیں کرپٹ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل باجوہ عمران خان کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیتے۔ بعض لوگ ہمارا کالم پڑھ کر کہہ سکتے ہیں کہ آرمی چیف اور فوج کے طاقت ور ہونے میں کیا کلام ہے۔ بات صحیح ہے، ہر آرمی چیف واقعتاً طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے اور فوج اس کی اصل جماعت ہوتی ہے مگر اب اس بات کا اعلان ہو جانا چاہیے تا کہ یہ ڈھکوسلا ختم ہو کہ ملک میں کوئی سیاست ہورہی ہے۔ انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ کوئی حزب اقتدار کی اداکاری کررہا ہے، کوئی حزب اختلاف کا کردار نبھا رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ معاشرے میں اسلام کی اصل مثالیوں یا ideals یعنی تقوے اور علم کو کوئی پوچھتا ہی نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی کیسے پوچھے کیوں کہ ہمارے سیاست دان اور جرنیل قوم کو 1958ء سے ایک ہی بات بتارہے ہیں اور وہ یہ کہ زندگی کی اصل حقیقت طاقت ہے۔ جو طاقت کو پوجے گا وہی کامیاب ہوگا، وہی قابل احترام ہوگا، وہی اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچے گا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔