مسعود حسین مقبوضہ کشمیر کے بہترین مصور ہیں۔ 35 برس سے وہ فائن آرٹس سے استاد کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کشمیر کی تحریک آزادی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اور اُس کی جھلک ان کے کام میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات نے انہیں بہت متاثر کیا ہے۔ پیلٹ گن کے چھروں سے زخمی بچوں کو دیکھ کر مجھے بہت غم ہوا میں نے سوچا کہ مجھے یہ پیغام دینا چاہیے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ غلط ہورہا ہے۔
شورش کو روکنے کے لیے بچوں کو اس انداز سے زخمی کرنے کی وجہ سے میں ایک ماہ تک تو کوئی کام ہی نہیں کرسکا۔ پھر میں نے جو تصویریں بنائیں انہیں خاموش تصویروں کا ٹائٹل دیا۔ مسعود حسین کی ان تصویروں میں کوئی رنگ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کا شمار دنیا کے حسین ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ مصور جہاں نظر گھمائے اس کے لیے بہت کچھ ایسا ہے کہ جو اس کی تصویروں کو رنگ سے بھر دے۔ لیکن جس طرح کہ یہاں حالات ہیں۔ اس نے میری تصویروں سے رنگوں کو ختم کردیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس افسردگی سے باہر نکلوں لیکن نکل نہیں پاتا کیوں کہ رنگوں کی خوبصورتی مجھے نظر نہیں آتی۔ میرا اپنا کام مجھے افسردہ کردیتا ہے۔
کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ستر سال گزر گئے۔ یہ کوئی معمولی عرصہ نہیں کتنی ہی نسلیں اس میں پیدا ہوئیں، جوان ہوئیں اور آزادی کا خواب دیکھتے دیکھتے گزر گئیں۔ 5 فروری 1949ء میں اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کی قرار داد منظور کی تھی۔ بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے لیے دی گئی اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ’’حالات معمول پر آنے کے بعد اہل کشمیر بین الاقوامی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے‘‘۔ پنڈت نہرو نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے نام ایک تار میں لکھا تھا کہ ’’ہمارا وعدہ ہے کہ امن وامان قائم ہوتے ہی ہم اپنی فوجوں کو واپس بلا لیں گے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام کی مرضی پر چھوڑ دیں گے، ہمارا وعدہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ ریاست کے عوام اور پوری دنیا کے ساتھ ہے‘‘۔ پھر سات عشرے گزر گئے۔ بھارت نے اپنا وعدہ نبھانے کے بجائے وہاں سات لاکھ فوج بھیج دی۔ یہ بھارت کا کشمیر میں حالات بہتر کرنے کا بندوبست تھا۔ اس دوران کشمیری نوجوانوں نے بہادری کی داستانیں رقم کیں۔ ہر مشکل اور سختی کا مقابلہ کیا۔
پچھلے پچیس سال میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری قتل ہوئے یا گرفتار کرکے غائب کرا دیے گئے۔ جیلوں میں قید بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو پندرہ بیس سال سے وہاں انتہائی برے حالوں میں ہیں۔ بھارت نے اپنے وعدوں کو یاد نہ رکھا بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو اس بری طرح کچلا کہ قصبہ قصبہ شہداء کے قبرستان آباد ہوگئے۔ ناڈا اور پوٹا جیسے ظالمانہ اور بے رحمانہ قوانین نافذ کیے۔ یورپی یونین نے کشمیر کو ’’دنیا کی خوبصورت ترین جیل‘‘ قرار دیا۔ جہاں فوج اور پولیس کے ذریعے حکومت کی جارہی ہے۔
انڈیا کشمیر کی تحریک آزادی کا بندوبست کرفیو کے ذریعے کرتا ہے۔ سری نگر کی رہائشی خاتون بی بی سی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ایسے دنوں میں ہم کیا کرسکتے ہیں‘‘؟؟۔ یہی ہوتا ہے کہ جو قریب ہوتے ہیں اور قریب آجاتے ہیں۔ ہمسایہ سے نیا رشتہ جڑ جاتا ہے۔ اہل خانہ دوست بن جاتے ہیں۔ انقلاب کی باتیں ہوتی ہیں اور مزاحمت کے تذکرے۔ یہ سب ہمارے لیے کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ ہم ظلم اور محکومیت کے سائے تلے جینا جانتے ہیں۔ ہمیں اپنے بھوکوں کو کھانا کھلانا آتا ہے ہم اپنے زخمیوں کے جسموں اور دلوں پر مرہم لگانا جانتے ہیں۔ ہم اپنے بازوؤں پر اپنے جوان بچوں کی لاشیں اُٹھانا بھی جانتے ہیں۔ اور یہ سب ہم نے پچھلے ستر سال کی آگ سے گزر کر سیکھا ہے۔ ہم پروپیگنڈے کو بھی جانتے ہیں۔ جب کرفیو اُٹھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حالات بحالی کی جانب بڑھ رہے ہیں ہم کچھ دن خاموش رہیں تو کہتے ہیں کہ کشمیر میں حالات اب معمول پر ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟؟ کیا ہم آزادی کے لیے جلوس نکال سکتے ہیں؟؟ کیا ہم اپنی آزادی کے لیے ریفرنڈم میں ووٹ ڈال سکتے ہیں؟؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ انڈیا نے کشمیر پر سات لاکھ فوجیوں کی مدد سے قبضہ کیا ہوا ہے اور ہم اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری اور نہ وہ ہاریں گے۔ یہ پاکستان کے حکمران ہیں جو امریکی غلامی میں دو قدم بڑھ کر سر جھکاتے ہیں۔ حافظ محمد سعید کی گرفتاری اسی لیے عمل میں آئی ہے حالاں کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ کشمیر کی آزادی اور استصواب کے لیے منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا کیا ہوا؟؟ اور بھارت ستر سال سے کشمیر پر ناجائز قبضہ جمائے ہوئے ہے اقوام متحدہ اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتا؟؟ اس ہفتے آزاد کشمیر کا دورہ کرنے والے برطانوی حکمران جماعت کے چھ اراکین پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے دونوں کشمیر میں اپنا کمیشن بھیجے۔ انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تنازع کشمیر کو لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی حمایت کی۔ اس سے قبل امریکا نے بھی پاکستان اور بھارت کے متنازع معاملات میں سرگرم کردار ادا کرنے کی پیش کش کی تھی۔ لیکن بھارت نے اس پیش کش کو فوری طور پر مسترد کردیا۔ بھارت نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’’بین الاقوامی طور پر وضع کردہ طریقہ کار پر عمل درآمد کیا جائے۔
آج اگر بھارت کی طرف سے یہ بات آئی ہے تو پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے وضع کردہ طریقہ کار آزادی کشمیر اور استصواب کے لیے منظور کی گئی قرار دادوں کو لے کر بھرپور مطالبہ سامنے آنا چاہیے۔ دیکھیں نواز شریف اپنے دوست کو قرار دادیں یاد دلاتے ہیں یا آموں کے کریٹ بھیجتے ہیں۔