(کے الیکٹرک….. پڑھتا جا شرماتا جا….. (مظفر اعجاز

172

ہم مہذب قوم ہوں یا نہیں لیکن ہمیں تہذیب اور طور طریقے اسی وقت یاد آتے ہیں جب ہم پر مظالم کی انتہا ہو جاتی ہے اور کوئی اس پر احتجاج کے لیے نکل کھڑا ہو۔ ایسا ہی اس مرتبہ ہوا جماعت اسلامی کراچی نے کے الیکٹرک کے ہاتھوں دبے اور پسے ہوئے عوام کی داد رسی کے لیے پہلے نیپرا سے رجوع کیا وہاں بار بار امیر جماعت کراچی حافظ نعیم الرحمن پیش ہوئے۔ کراچی کا مقدمہ اس انداز میں لڑا کہ نیپرا ان کو فریق تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اس کے بعد جماعت اسلامی نے جعلی بلوں، اضافی اور ایوریج بلوں کے نام پر اضافی وصولیوں کا ریکارڈ پیش کیا جس کے نتیجے میں نیپرا نے کے الیکٹرک کو حکم دیا کہ کراچی کے لیے بجلی کے ٹیرف میں 3 روپے کمی کرو اور اضافی وصول شدہ رقم واپس کی جائے لیکن کراچی کے لوگوں کے لیے یہ خوش خبری محض اعلان بن کر رہ گئی اور چند روز بعد یہ انکشاف ہوا کہ حکومت، نیپرا اور کے الیکٹرک نے ساز باز کرکے اس کو بدلنے کی کوشش کی تو جماعت اسلامی نے مذمت کی اور احتجاج کا اعلان کیا۔ حکومت کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو پھر دو تین راستے ہی تھے ایک تو یہ کہ خاموش ہو کر بیٹھ جائیں، کے الیکٹرک کو عوام پر مظالم کرنے دیں، اوور بلنگ، جعلی بلنگ، زیادہ ریٹ اور بجلی غائب۔ یا پھر محض اخباری بیان دے کر گھر بیٹھ جائیں یا پھر عوام کو لے کر سڑک پر آجائیں۔ اگرچہ یہ مسئلہ پورے کراچی کا ہے صرف ایک جماعت کا نہیں لیکن اگر کوئی نکل آیا ہے، لاٹھیاں کھارہا ہے، ڈنڈے کھا رہا ہے تو اس کا ساتھ دیا جائے۔ لیکن جماعت اسلامی کے 31 مارچ کے دھرنے کے موقع پر بہت سے ایسے لوگ ملے جو تہذیب و شائستگی کا درس دے رہے تھے۔ ایک صاحب رانگ سائڈ چلے آرہے تھے کہنے لگے آگے نہ جائیں آنسو گیس کی شیلنگ ہورہی ہے۔ ہم نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگے ارے خوامخواہ میں دھرنا دیا ہوا ہے جماعت والوں نے تہذیب کے ساتھ احتجاج نہیں کرسکتے تھے۔ ہم نے کہا بالکل درست فرمایا۔ آپ اپریل تا ستمبر جسم کھجاتے اور پسینہ پونچھتے گزاریے گا اور بجلی کا بل بھی ہر ماہ پہلے سے زیادہ دیجیے گا۔ وہ تو برا سا منہ بنا کر آگے چلے گئے۔
سوشل میڈیا پر بھی اسی طرح کچھ لوگ تہذیب و شائستگی کا درس دے رہے تھے۔ ان کو بھی یہی جواب ملا کہ شائستگی اور تہذیب اپنی جگہ احتجاج کرنے والوں نے کیا بدتہذیبی کی ہے؟؟ لوگ مارچ سے ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں آگئے ہیں اور آپ ہیں کہ تہذیب سکھارہے ہیں۔ یہ کون سی تہذیب ہے کہ لوگوں سے بجلی کے اضافی بل وصول کیے جائیں اور بجلی نہ دی جائے۔ اس پر کوئی آواز اٹھائے تو اسے تہذیب و شائستگی کا درس دیا جائے۔ ارے بھائی شادی بیاہ میں اگر 12 بجے تک کھانا نہیں ملتا اور جب 12 بجے کھانا کھلتا ہے تو اچھے اچھے تہذیب یافتہ لوگ تمام تہذیب و شائستگی بھلا کر کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے پولیس جماعت اسلامی کے دھرنے پر ٹوٹ پڑی تھی۔ پھر کہاں کی تہذیب اور شائستگی۔ ابھی ہم یہ سطور لکھنے میں مصروف تھے کہ جسارت کی تابڑ توڑ خبروں سے پریشان کے الیکٹرک نے نہایت دلچسپ قسم کی ایک پریس ریلیز جاری کردی جس میں اس نے عجیب و غریب مبہم انداز اختیار کیا ہے۔ پریس ریلیز کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔ کے الیکٹرک نے تمام بے بنیاد الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ ادارے کی اولین ذمے داری کراچی کے عوام کی خدمت پر مرکوز ہے۔ اور ادارہ کراچی اور اس کے مضافات کی ڈھائی کروڑ آبادی کو خدمات فراہم کررہا ہے۔ اس پریس ریلیز میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ کے الیکٹرک پر بجلی کی اوور بلنگ کا الزام لگایا گیا ہے لیکن اس کی وضاحت ضرور کی گئی ہے کہ ’’تمام بلنگ ریگولیٹری طریقہ کار اور قواعد کے مطابق کی جاتی ہے‘‘۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کے الیکٹرک کے ڈپٹی جنرل منیجر شعیب صدیقی نے تمام نارمل بلوں پر 20 یونٹ اور ایوریج بلوں پر 50 یونٹ اضافی چارج کیے جائیں۔ شعیب صدیقی کو تو یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ اس نے ازخود یہ حکم جاری کیا تھا۔ لیکن یہ حکم اب بھی نافذ العمل ہے اس حکم کو واپس نہیں لیا گیا۔ اسی طرح پریس ریلیز میں بجلی کے نرخوں کے حوالے سے بھی غلط بیانی کی گئی کہ پورے ملک کی طرح کراچی میں بھی بجلی کے نرخ یکساں ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کراچی میں پورے ملک سے زیادہ نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کے الیکٹرک کامیاب بزنس ادارہ اور ایک کیس اسٹڈی بن چکا ہے۔ اس بات سے ضرور اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ کے الیکٹرک کے کیس کی حقیقی اسٹڈی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ پیداواری صلاحیت سے نصف بجلی پیدا کرکے مال کس طرح کمایا جاتا ہے۔ دامن پہ کوئی داغ نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ۔
پریس ریلیز میں یہ بھی پتا چلا کہ کے الیکٹرک نے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی مستحکم سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن یہ پیسے آئے کہاں سے اور کہاں سرمایہ کاری کی گئی۔ اس حوالے سے پریس ریلیز خاموش ہے۔ پریس ریلیز کا آغاز تمام بے بنیاد الزامات کی تردید سے ہوا اور ایک ایک کرکے کسی الزام کو دہرائے بغیر اس کی وضاحت کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا کوئی الزام نہیں ہے لیکن تمام الزامات غلط ہیں اور ساری وضاحتیں پھس پھسی بھی نکلیں۔
۔۔۔جاری ہے۔۔۔