(اسلامی قوانین(حافظ عاکف سعید

100

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے جو خاصا چونکا دینے والا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ پاکستان میں ہر ایک کے لیے الگ قانون ہے۔ وہ کھل کر بات نہیں کرسکتے کیوں کہ جو حقائق وہ بیان کرنا چاہتے ہیں وہ کھل کر بیان نہیں کیے جاسکتے۔ ان کا زبان پر لانا محال ہے۔ لہٰذا ان کے بیان کو بین السطور پڑھنا پڑے گا۔ آئین شکن دفعہ 6 کے تحت غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ آئین شکن کون ہے، وہ سب جانتے ہیں۔ ہمارے دستور میں آئین شکن کی سزا سے بھی سب واقف ہیں۔ لیکن اس کو زبان پر لانا جرم بنا دیا گیا ہے۔ جو ایسا کرے وہ اپنی خیر منائے۔ لہٰذا انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ آئین شکنی کے جرم کا مرتکب عدالت آنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ بے چارہ قانون کیا کرے۔ یہ چیئرمین سینیٹ فرمارہے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے خوب صورت قانون بنائے جاتے ہیں اور الماریوں میں سجا دیے جاتے ہیں۔ قانون کے نفاذ کے مختلف معیارات ہیں۔ پہلا ریاستی اشرافیہ کے لیے، دوسرا ریاستی اشرافیہ کے لیے کام کرنے والوں، تیسرا مال بنانے والوں اور چوتھا عوام کے لیے ہے۔
چیئرمین سینیٹ آخر کس کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں؟ ایسا کیوں نہ ہو جب ہم نے اللہ کے دین سے انحراف کیا ہوا ہے۔ اس سے اجتماعی وعدہ خلافی کی ہے۔ وہ دین جو ہمیں ایک ہی قانون کی بات بتاتا ہے جس میں کسی کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ خلیفۂ وقت سیدنا علیؓ سے ایک یہودی نے ان کی ذرہ عاریتاً لی تھی اور بعد میں مکر گیا۔ سیدنا علیؓ نے قاضی کی عدالت میں استغاثہ دائر کیا۔ جب کہ مخالف اسلامی ریاست کا ایک غیر مسلم شہری تھا۔ اسلام نے اسے بھی حقوق دیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا خلیف�ۂ وقت کو اسلام کے اصولوں پر چلنا تھا۔ قاضی نے کہا کہ گواہ فراہم کریں۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص پر الزام لگائے تو اس کا ثبوت پیش کرے۔ سیدنا علیؓ نے دو گواہ حاضر کردیے جن میں سے ایک ان کے صاحب زادے تھے اور دوسرا ان کا غلام تھا۔ قاضی نے کہا کہ اسلامی قوانین کی رو سے بیٹے اور غلام کی گواہی معتبر نہیں۔ لہٰذا آ پ کا مقدمہ خارج کیا جاتا ہے۔ یہ ہے اسلامی قانون کی بالادستی۔ قاضی شریح نے جب یہ فیصلہ سنایا تو یہودی اس سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سیدنا علیؓ غلط بیانی کرسکتے ہیں لیکن قانون کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن کی تکمیل ضروری ہے۔ نظام خلافت کے دوران جن کے ہاتھ میں قیادت تھی ان کی درویشی کا یہ عالم تھا کہ جب خلیف�ۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلافت کا منصب عطا ہو ا، جس سے پہلے وہ ایک تاجر تھے، وہ حسب معمول تجارت کی غرض سے مارکیٹ میں پہنچے۔ صحابہ کرامؓ نے توجہ دلائی کہ اب آپ کو امور خلافت انجام دینا ہے تو وہ فرمانے لگے کہ میں اپنی معاش کا انتظام کیسے کروں۔ وہاں یہ اصول طے کیا گیا کہ خلیفہ کا وظیفہ مقرر کیا جائے تاکہ وہ اپنی ذمے داری نبھا سکے۔ وظیفہ بھی اتنا مقرر کیا گیا جو کم سے کم ہوسکتا تھا۔ اسی پر انہوں نے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کیا۔ ایک دن یہ خواہش ہوئی کہ بہت عرصہ ہوا کہ کوئی میٹھی چیز نہیں کھائی۔ تو زوجہ محترمہ نے کہا کہ اس کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن پھر روزانہ تھوڑی تھوڑی بچت کرکے ایک دن انہوں نے خلیف�ۂ وقت کی خواہش پوری کردی۔ انہوں نے زوجہ محترمہ سے دریافت کیا کہ یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ تو انہوں نے سارا ماجرا بیان کردیا۔ انہوں نے اتنی رقم اپنے وظیفے میں سے کم کروا دی۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا واقعہ تو بہت ہی معروف ہے کہ ایک دن دوران خطبہ ایک شخص کھڑے ہو کر کہا کہ ہم تو نہ آپ کی بات سنیں گے اور نہ مانیں گے۔ یہ جو کرتا آپ نے پہنا ہوا ہے یہ شام سے آئے ہوئے مال غنیمت کی چادروں سے بنا ہے۔ ہر مسلمان کو جتنی چادر ملی ہے اس سے تو ایک عام آدمی کا کرتا نہیں بن سکتا اور آپ تو ماشاء اللہ طویل القامت ہیں۔ آپ کا کرتا کیسے بن گیا؟ پہلے اس کی وضاحت کیجیے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اشارہ کیا کہ تم وضاحت کردو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہم دونوں میں سے کسی کا کرتا بن نہیں پارہا تھا تو میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد صاحب کو دے دیا تو ان کا کرتا بنا ہے۔ اب انہوں نے کہا کہ اب ہم آپ کی بات سنیں گے اور مانیں گے۔
خلیف�ۂ وقت راتوں میں گشت کرکے لوگوں کے حالات معلوم کرتے تھے اور ان کے مسائل حل کرتے تھے۔ یہ ہے نظام خلافت میں احتساب اور رعایا کی خبرگیری کا معاملہ۔ ہم نے تو یہ طے کررکھا ہے کہ نظام خلافت کو تو اس ملک میں آنے ہی نہیں دینا ہے۔ اصل میں یہ تو ہمارے دشمنوں نے طے کیا ہے لیکن ہم ان کے دائیں بائیں ان کے حکم کی تعمیل میں کھڑے ہیں۔ جو آج نظام خلافت کا نام لیتا ہے وہ نیو ورلڈ آرڈر کا دشمن ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے۔ آج ظلم اس سطح پر ہے جس کو بیان کرنے کے لیے مجھے کوئی لفظ جچتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اپنے اختیارات کا جس قدر ناجائز اختیار کیا جارہا ہے، اس معاملے میں شاید پوری دنیا ہمارے پیچھے رہ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں باعمل مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ بالخصوص ہمارے حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے اور عوام کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں شریک ہوں جس کے نتیجے میں یہاں نظام خلافت کا نفاذ ممکن ہوسکے۔ آمین یا ربّ العالمین۔