پیداواری لاگت میں اضافہ ٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت کے لیے نقصان دہ ہے

137

فیصل آباد (اے پی پی )پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہاہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں بتدریج اضافہ ٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک سے عدم مسابقت سے اس اہم صنعت کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے لہٰذاحکومت عالمی مارکیٹ میں مقابلہ بازی کے لیے پیداواری لاگت کم کرنے کی غرض سے تمام ممکن اقدامات یقینی بنائے ۔ میڈیاسے بات چیت کے دوران انہوںنے کہاکہ پاکستان میں پیداواری لاگت خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں ہماری مقابلاتی سکت متاثر ہو رہی ہے اور دیگر ممالک سے مسابقت میںکمی آچکی ہے۔انہوںنے کہاکہ خام مال اور پیداواری عوامل کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ نے برآمدی صنعت کو سنگین بحران سے دوچار کر رکھا ہے نیز توانائی کی قلت کے باعث پنجاب کی انڈسٹری نہ صرف عالمی مارکیٹ بلکہ اندرون ملک بھی عدم مسابقت کا شکار ہے۔ انہوںنے کہاکہ حریف ممالک کی طرف سے اپنے برآمدی سیکٹرز کو ترجیحی بنیادوں پر مراعات و سبسڈیز کی فراہمی سے وہاں برآمدی ترقی کا گراف بلندی کی طرف ہے جبکہ یہاں حکومتی عدم توجہی، خام مال و پیداواری عوامل کی قیمتوں میں دن بدن اضافے اور ٹیکسوں کے بے جا بوجھ کے باعث برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت انتہائی زیادہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا خطے کے دیگر ممالک کی ٹیکسٹائل کی صنعت سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ بنگلا دیش میں سال2010ء سے 2015 ء تک ٹیکسٹائل کی برآمدی ترقی کی شرح160 فیصدجبکہ بھارت میں 94 فیصد اور چائنا میں 96فیصد رہی مگر اس کے مقابلہ میں پاکستان میں ٹیکسٹائل برآمدات میں ترقی کی شرح صرف22 فیصد رہی۔انہوںنے بتایاکہ سال2008ء میں بنگلا دیش کا عالمی ٹیکسٹائل ٹریڈمیں شیئر1.09 فیصد تھا جبکہ سال2005 ء میں یہ بڑھ کر 3.03 فیصد ہو گیا اسی طرح سال 2009 ء میںعالمی ٹیکسٹائل تجارت میں بھارت کا شیئر 3.4 فیصد جبکہ چائنا کا شیئر 27 فیصد تھا جوکہ سال2015 ء میں بڑھ کر بالترتیب 4.7 فیصد اور 37 فیصد ہو گیامگر اس کے مقابلہ میں پاکستان کا عالمی ٹیکسٹائل ٹریڈ میں شیئر 2010ء میں 2.20 فیصد سے کم ہو کر2015ء میں 1.80فیصد رہ گیا۔پیداواری عوامل کی دستیابی کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سال 2012 ء میں 28 فیصد گیس کی کمی کا سامنا تھا جبکہ سال2014ء میں یہ بڑھ کر41 فیصد، سال 2015 ء میں 46 فیصد، سال2016ء میں66 فیصد اور سال 2017ء میں گیس کی کمی40 فیصد ہوگئی۔ انہوںنے بتایاکہ اسی طرح سال2012ء میں پنجاب میں موجود ٹیکسٹائل کی صنعت کو اوسطاً37 دن بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا جبکہ سال 2013ء میں یہ بڑھ کر66دن ،سال 2014ء میں 96 دن اور سال2015ء میں 122 دن بجلی کی لوڈ شیڈنگ رہی۔ انہوںنے بتایاکہ حکومتی سرپرستی اور صنعت دوست پالیسیوں کے باعث خطے کے دیگر ممالک میں ٹیکسٹائل مشینری کی مد میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی۔انہوں نے کہا کہ سال 2010ء سے سال2015ء کے درمیان چائنا میں 35.29 ملین سپنڈل کا اضافہ ہوا اسی طرح بھارت میں 14.20 ملین سپنڈل جبکہ بنگلا دیش میں 1.98 ملین سپنڈل کا اضافہ ہو الیکن اس کے مقابلہ میں پاکستان میں صرف 1.02 ملین سپنڈل ہی بڑھ سکے۔انہوںنے کہا کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ مختلف وفاقی و صوبائی ٹیکسز کے بوجھ سے صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی تجارت میں ملکی شیئر کو بڑھانے اور مقامی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صنعتی ترقی کی شرح میں اضافہ کیا جائے جس کے لیے حکومت کو ترجیحی اقدامات کرنا ہوں گے اور ملک کے لیے کثیر زرمبادلہ کمانے والی اہم صنعت کو دیگر ممالک سے مسابقت کے حصول کے لیے مراعات فراہم کرنا ہوں گی ۔