جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سوئس بینکوں کا پیسہ؟

203

zr_M-Anwerعدالت عظمیٰ کی ہدایت پر پاناما اسکینڈل کے حوالے سے تحقیقات کے لیے قائم کی گئی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ 10جولائی کو عدالت میں جمع کرادی۔ تحقیقات کے دوران ہی حکومتی جماعت کے ارکان نے جے آئی ٹی پر اعتراضات کرنے شروع کردیے تھے اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کی تھی۔ رپورٹ پر وزراء نے جس ردعمل کا اظہار کیا اور مسلسل کررہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ حکومت کے لیے ’’وائٹ پیپر‘‘ کے مترادف ہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ملک کی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ تاہم ملک کی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے تین روز قبل ہی اپنے طبی معائنہ کی غرض سے دبئی روانہ ہوگئے تھے۔ شاید انہیں اس رپورٹ کے نتائج کا علم ہوچکا تھا۔ بہرحال آصف زرداری کے صاحب زادے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو اخلاقی طور پر استعفا دینا ہوگا۔ بلاول زرداری نے کہا کہ ’جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی 3 نسلوں کو بے نقاب کردیا، جے آئی ٹی کو نواز شریف کے خلاف اثاثے چھپانے کے شواہد ملے، جس کے بعد وہ وزیر اعظم رہنے کا سیاسی اور اخلاقی جواز کھو چکے ہیں اور انہیں بلاتاخیر وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہوجانا چاہیے۔ اسی طرح کے مطالبات جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق نے بھی کیے ہیں۔
چوںکہ وطن عزیز میں مستعفی ہونے کی کوئی روایت موجود نہیں۔ اس لیے نواز شریف کی جانب سے بھی ایسا کوئی قدم اٹھانے کا امکان نہیں۔ بلکہ اطلاعات ہیں کہ انہوں نے پارٹی عہدیداروں پر واضح کردیا ہے کہ نہ وہ اسمبلیاں توڑیں گے اور نہ ہی استعفا دیں گے۔ دراصل ملک کے سیاسی چمپئنوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ’’مقتدر قوت انہیں برطرف کردے تاکہ وہ زبردستی برطرفی کا ’’تمغا‘‘ تھامے آئندہ انتخاب جیت کر پھر سے قوم پر حکمرانی کریں۔ لیکن شاید میاں نواز شریف یہ بات بھول رہے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں وہ نااہل قرار پاکر عہدے سے برطرف کیے جائیں گے۔ ایسی صورت میں وہ آئندہ کسی بھی عوامی عہدے کے لیے اہل نہیں ہوںگے۔ جیسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم بن کر سزا یافتہ ہوچکے ہیں اور اب وہ کسی ایسے عہدے کے لیے اہل نہیں رہے۔
پانانا کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر عدالت عظمیٰ وزیراعظم نوزا شریف اور ان کے خاندان کو جھوٹ بولنے والے اور غیر قانونی منی ٹریل کے الزامات میں کتنی سزا دیتی ہے یا کیا فیصلہ سناتی ہے فی الوقت اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عام افراد ان تمام تحقیقات اور عمل کے باوجود مختصر جملے میں بہت یقین کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’کچھ بھی نہیں ہوگا دیکھ لینا!‘‘۔ لیکن خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ کرپشن کے الزامات اگر تحقیقات میں ثابت ہوئے تو نہ صرف وزیراعظم نواز شریف بلکہ ان کے سمدھی اور دیگر افراد کو بھی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر غیر قانونی رقوم کی منتقلی کے الزامات تحقیقات سے سچ ثابت ہوچکے ہیں تو کیا وہ رقوم بھی منگوائی جائے گی جو غیرقانونی طور پر ملک سے منتقل کرکے آف شور کمپنی کا حصہ بنی ہے؟ یقینا عدالت عظمیٰ اس بارے میں بھی فیصلہ دے گی اگر رقوم واپس لانے کا حکم بھی دیا گیا تو پوری قوم کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہوگی اور یہ نئے پاکستان کی شروعات ہوگی۔ میاں نواز شریف پر لگے الزامات پر عدالت کی جانب سے رقوم واپس لانے کا حکم دیا گیا اور وزیراعظم نواز شریف کو کوئی بھی سزا دی گئی تو اس کے اثرات ملک کے دیگر کرپٹ عناصر پر پڑنا فطری بات ہوگی۔ ایسی صورت میں سوئس بینکوں میں رکھے دوسو بلین ڈالرز کی واپسی کے لیے بھی پیش رفت کی توقع کی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی کا مقدمہ بھی سنا جارہا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن نے آج تک کسی سیاسی جماعت کے غیر ملکی اثاثوں اور فنڈز کے حوالے سے تحقیقات نہیں کیں اور الیکشن کمیشن سیاسی جماعت کے بیان حلفی پر گزٹ جاری کر دیتی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کا بیان حلفی جھوٹا ثابت ہو اور غیر ملکی فنڈنگ ثابت ہو جائے تو الیکشن کمیشن کارروائی کا اختیار رکھتا ہے، غیر ملکی فنڈز ثابت ہونے پر بحق سرکار ضبط کر لیے جاتے ہیں۔
عمران خان اور جہانگیر ترین کی ناہلی کے مقدمے کی کارروائی مسلم لیگ رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر کی جارہی ہے۔ اب تک کی گئی سماعت میں آنے والے انکشافات میں الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی کا بیان اہم ہے کہ ’’آج تک کسی سیاسی جماعت کے غیر ملکی اثاثوں اور فنڈز کے حوالے سے تحقیقات نہیں کی گئیں‘‘۔ ممکن ہے کہ اس مقدمے کے فیصللے کے ساتھ عدالت عظمیٰ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں بھی تحقیقات کا حکم دے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ نہ صرف ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے بہتر ہوگا بلکہ ملک جمہوری نظام کے استحکام کے لیے بھی بہترین ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ معروف تاجروں و صنعت کاروں کے بیرون ممالک موجود اثاثوں کا پتا لگایا جائے ساتھ ہی بیرون ملک رقوم کی منتقلی کے قوانین پر بھی غور کرکے انہیں مزید بہتر بنایا جائے تاکہ ملک سے سرمایہ باآسانی باہر منتقل نہ ہوسکے۔

محمد انور