ہندوستان کے صدارتی انتخاب پر سیاسی منافقت حاوی

314

Jilani-117جولائی کو ہندوستان کے نئے صدر کا انتخاب ہورہا ہے۔ یہ انتخاب کئی اعتبار سے اہم ہے۔ سب سے پہلے تو اس لحاظ سے کہ اس انتخابی معرکے میں، حکمران بھارتیا جنتا پارٹی اور حزب مخالف کی جماعتوں کی مشترکہ امیدوار، دونوں دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیا جنتا پارٹی نے اپنا امیدوار اتر پردیش کے دلت رام ناتھ کووند کو نامزد کیا ہے جو کٹر ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) سے تعلق رکھتے ہیں۔ رام ناتھ کووند اس وقت بہار کے گورنر ہیں۔ ان کی نامزدگی اس لحاظ سے منافقت کی علم بردار ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی اور RSS دونوں ہمیشہ سے دلتوں کے سخت خلاف رہی ہیں اور ا ن کے خفیہ لشکر اب بھی دلتوں سے برسر پیکار رہتے ہیں۔

حزب مخالف کی طرف سے لوک سبھا کی پہلی خاتون اسپیکر میرا کمار کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ یہ بھی دلت طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن ان کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے۔ میرا کمار، ہندوستان کے سابق نائب وزیر اعظم جگ جیون رام کی صاحب زادی ہیں۔ جگ جیون رام ہندوستان کی تحریک آزادی کے ممتاز دلت رہنما رہے ہیں اور آزادی سے پہلے پنڈت نہرو کی عبوری کابینہ میں وزیر تھے۔ آزادی کے بعد وزیر دفاع رہے ہیں اور 71میں بنگلا دیش کی جنگ کے دوران وہ اسی عہدے پر فائز تھے۔ اس زمانہ میں ان کے ساتھ نا انصافی صرف دلت ہونے کی بناء پر ہوئی۔ کئی ایسے موقعے آئے تھے کہ جگ جیون رام، وزارت عظمیٰ پر فائز ہو سکتے تھے لیکن محض دلت ہونے کی وجہ سے وہ یہ عہدہ حاصل کرنے سے محروم رہے۔ تاہم 1992 میں ہندوستان میں پہلی بار، ایک دلت کے نصیب جاگے جب کے آر نارئنن نائب صدر کے عہدے پر منتخب ہوئے اور پھر 1997 میں وہ صدر بن گئے۔
اب دلت جگ جیون رام کی صاحب زادی میرا کمار، صدر مملکت کے عہدے کے لیے انتخاب لڑ رہی ہیں لیکن اس امر کے باوجود کہ وہ 2009 سے 2014 تک لوک سبھا کی اسپیکر رہ چکی ہیں اور چار بار لوک سبھا کی رکن منتخب ہو چکی ہیں اور اس سے پہلے وزارت خارجہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکی ہیں، ان کی جیت کا بہت کم امکان ہے اور ان کو بھی اپنے والد کی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوںکہ صدر منتخب کرنے والے اداروں، پارلیمنٹ کے 776 اور 29ریاستی اسمبلیوں کے 4120 اراکین میں بھارتیا جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت ہے اور رام ناتھ کووند کی جیت یقینی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے ایک دلت، رام ناتھ کو وند کو صدر کے انتخاب کے لیے چننے کے پیچھے خالص سیاسی مقصد کار فرما ہے۔ ان کو امید ہے کہ ایک دلت کو اس عہدے پر نامزد کر کے وہ ہندوستان کے 25کروڑ دلتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے اور ممکن ہے کہ 2019کے عام انتخابات میں وہ ان کی حمایت کے بل پر فتح مند رہیں۔
عام خیال تھا کہ بھارتیا جنتا پارٹی کی طرف سے صدر کے عہدے کے لیے لال کرشن اڈوانی یا مرلی منوہر جوشی کو امیدوار نامزد کیا جائے گا لیکن چوںکہ بابری مسجد کی مسماری کے سلسلے میں ان دونوں کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے اس لیے انہیں نامزد نہیں کیا گیا۔
عام روایت ہے کہ نائب صدر کو صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ، صدر راجندر پرشاد کی معیاد کے خاتمے پر نائب صدر رادھا کرشنن کو صدر نامزد کیا گیا تھا اور رادھا کرشنن کی معیاد کے خاتمے کے بعد نائب صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کو صدر منتخب کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے انتقال کے بعد ان کے نائب صدر وی وی گری کو صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ اس وقت حامد انصاری گزشہ دو معیادوں سے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں، روایت کے مطابق وہ صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے حق دار تھے لیکن، نریندر مودی نے ان کو مسترد کر دیا۔ وجہ بتائی نہیں لیکن سیاسی شعور رکھنے والوں پر عیاں ہے۔
نریندر مودی اور RSS کی حکمت عملی اب آہستہ آہستہ بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔ 2014 کے عام انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی کو جو غیر معمولی فتح حاصل ہوئی اس کے بعد ان کی بڑی ہمت بندھی ہے اور اتر پردیش میںحالیہ انتخابات میں حیرت انگیزجیت کے بعد انہیں پورا یقین ہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں تمام ریاستوں میں بھارتیا جنتا پارٹی کو فتح حاصل ہوگی۔ اسی کی بنیاد پر مودی نے پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک بھارتیا جنتا پارٹی کے راج کانعرہ لگایا ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی اور RSS کی حکمت عملی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں فتح کے ذریعے لوک سبھا، راجیہ سبھا اور تمام ریاستوں میں اپنا تسلط جمایا جائے اور اس کے بعد آئین میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی جائے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا جائے۔ یوں 1925میں کیشو بالی رام ہیگواڑ نے RSS کے قیام کے وقت ہندو راشٹر کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تکمیل کی جائے اور گول والکر، مدھو کر دیورس، سدرشن اور بھاگوت کی کوششوں کو کامیابی سے ہم کنار کیا جائے۔
نومبر 1949میں ہندوستان کے آئین کی منظوری کے وقت RSS نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اسے ہندووں کے قانون ’’مانو اسمرتی‘‘ کے خلاف قرار دیا تھا۔ RSSنے ہندوستان کے قومی پرچم ترنگے کو بھی مسترد کردیا تھا اور اس کی جگہ شیوا جی کا زعفرانی پرچم ’’بھا گوا دواج‘‘ لہرایا تھا۔
بھارتیا جنتا پارٹی اور RSSکا ارادہ آئین میں تبدیلی اور ہندو راشٹر اور ہندودتا کے قیام کے بعد ترنگے کی جگہ شیوا جی کے پرچم کو اپنانے کا ہے۔ اور اسی کے ساتھ ملک میں پارلیمانی نظام ترک کر کے صدارتی راج رائج کر دیا جائے گا۔ یہ تو ظاہری علامتی تبدیلی ہوگی لیکن ہندو راشٹر کے قیام کے بعد جو معاشرتی اور سیاسی انقلابی تبدیلیاں ہوں گی ان کے دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں پر ظلم کے جو دروازے کھلیں گے ان کا آج کے حالات کے پیش نظراندازہ لگانا مشکل نہیںہے۔
RSS کے رنگ میں رنگے، رام ناتھ کووند کی صدارتی انتخاب میں کامیابی اس حکمت عملی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔