مقبوضہ بیت المقدس (انٹرنیشنل ڈیسک) قابض اسرائیلی حکومت نے شام کے مقبوضہ علاقے سطح مرتفع جولان میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔ 1967ء میں جولان پر قبضے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ قابض اسرائیلی حکومت عالمی سطح پر متنازع قرار دیے گئے اس علاقے میں کسی قسم کے انتخابات کا انعقاد کر رہی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت جولان کے بعض درُوز اکثریتی دیہات میں ان انتخابات کا انعقاد کرے گی۔ اسرائیلی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ان دیہات میں رہایش پذیر ہر شخص رائے دہی میں شریک ہوسکے گا، خواہ اس کے پاس اسرائیلی شہریت اور شناختی کارڈ نہ ہو۔ واضح رہے کہ مقبوضہ شامی علاقے جولان کے ان دیہات کی کل آبادی 21 ہزار سے زائد نہیں اور ان میں سے بھی صرف 1500 افراد اسرائیلی شہریت رکھتے ہیں، جب کہ دیگر ساڑھے 20 ہزار باشندے اپنے ان دیہات کو مقبوضہ تسلیم کرتے ہیں اور ان پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز تصور کرتے ہیں۔ شام کی اسد انتظامیہ اور جولان سے متصل شامی صوبے قنیطرہ کی مقامی کونسل نے اس اسرائیلی فیصلے کو مقبوضہ علاقے پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کی کوشش اور اس کی شامی شناخت کو ختم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کو لبنانی سرحدی علاقوں میں قائم یہودی بستیوں پر حزب اللہ کے حملے کا خدشہ ہے جس کے پیش نظر صہیونی ریاست کا سیمنٹ کی دیوار بنانے اور سیکورٹی باڑھ سمیت دیگر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا ارادہ ہے۔ اسی اندیشے کے پیش نظر لبنانی گاؤں کفرکلا کی سرحد پر اسرائیلی یہودی بستی مسجاف کے مقابل 7 میٹر بلند اور 20 کلومیٹر طویل کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی گئی تھی۔ عرب ٹی وی کی ویب سائٹ رپورت کے مطابق اسرائیل سمجھتا ہے کہ حزب اللہ آیندہ جنگ میں سرحدی یہودی بستیوں پر قبضہ کرنے اور آباد کاروں کو یرغمال بنانے کی کوشش کرے گی۔ اس وجہ سے اسرائیل مذکورہ منظر نامے کو روکنے کے لیے سیمنٹ کی دیوار بنانے اور سیکورٹی باڑھ کو تبدیل کرنے کے ساتھ رکاوٹیں بھی کھڑی کرے گا۔ اسرائیل اور لبنان کے درمیان 81 کلومیٹر طویل سرحد پر جولائی 2006ء کی جنگ کے اختتام کے بعد 11 برس سے نسبتاً خاموشی اور سکون چھایا ہوا ہے تاہم اسرائیل کی حالیہ تشویش یہ ہے کہ دیوار کی تعمیر سرحدی علاقے میں کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے اور حزب اللہ یہاں موجود کام کرنے والوں اور فوجی اہل کاروں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ اگرچہ اسرائیل اور لبنان دونوں جانب سے یہ ہی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ میں سے کوئی بھی فریق جنگ کا شعلہ بھڑکانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ تاہم اسرائیل کچھ عرصہ قبل یہ عندیہ دے چکا ہے کہ وہ ایران کی طرف سے لبنان میں حزب اللہ کے لیے قائم کیے جانے والے اس کارخانے کو نشانہ بنا سکتا ہے جہاں میزائل اور گولہ بارود تیار کیا جاتا ہے۔ اس اقدام سے جنگ کا طبل بج سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج میں عسکری انٹیلی جنس کے شعبے کے سربراہ لبنان میں میزائل اور گولہ بارود تیار کرنے والے کارخانے کے تزویراتی خطرے سے پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے شمالی علاقے میں فوجی مشقوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے بدترین ممکنہ منظر نامے میں اسرائیل پر روزانہ 1500 کے قریب میزائل داغے جانے کی توقع رکھی جا رہی ہے اور اس میں یہودی بستیوں پر ممکنہ قبضے کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔واضح رہے کہ بعض فلسطینی حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے علاقے میں مشکوک سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لبنانی سرحد پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔