پاکستان کا مالی سال یکم جولائی سے شروع ہو کر اگلے سال 30 جون کو ختم ہوتا ہے۔ سرکاری ادارے مالی سال کے اختتام کے نزدیک سالانہ اہداف پورا کرنے کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ جیسے بھی ہو اہداف پورے کیے جائیں یا پھر اِن کے نزدیک پہنچا جائے۔ لیکن اگر یہی ادارے مالی سال کے آغاز سے مربوط اور متعین منصوبہ بندی کریں اور اہداف کو سہ ماہی بنیاد پر پورا کرنے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آخر وقت پر بھاگ دوڑ کرنی پڑے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے کا وفاقی ادارہ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہے۔ کسی ملک کی معیشت میں ٹیکس وصولیابی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ملک کے تمام انتظامی، دفاعی، عدالتی، سماجی، دستوری و خارجی معاملات کے لیے رقم کی فراہمی کا اہم ذریعہ ٹیکسز ہوتے ہیں، پاکستان میں سالانہ اخراجات میں ایک اہم مد قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی ہے اور موجودہ حکومت نے پاکستان پر جو بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھایا ہے اس کے بعد تقریباً وفاقی بجٹ کا ایک تہائی قرضوں اور سود کی ادائیگی میں نکل جاتا ہے۔
مالی سال 2016-17ء کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو 3621 ہزار روپے ٹارگٹ دیا گیا تھا۔ اپریل کے مہینے سے ہی ایف بی آر نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ہدف تک پہنچنا مشکل ہے کیوں کہ حکومت نے کھاد پر سبسڈی اور پانچ اہم برآمدات کو زیرو ریٹڈ کردیا ہے۔ چناں چہ وزارت خزانہ نے نظرثانی شدہ ہدف 3500 ہزار مقرر کردیا۔ جون کے آخری ہفتے تک ایف بی آر کے چیئرمین ڈاکٹر ارشاد وزارت خزانہ اور ملک کے عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ہم 3500 ہزار روپے کا ہدف پورا کرلیں گے مگر 2016-17ء کے اختتام اور 2017-18ء کے آغاز پر ایف بی آر نے یہ خبر سنائی کہ 3400 ہزار سے زائد کا ٹیکس جمع کرلیا گیا ہے یعنی وہ نظرثانی شدہ ہدف بھی پورا نہ کرسکے۔
ہدف کو پورا کرنے کے لیے اپریل اور مئی کے مہینے میں لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں کاروباری اداروں پر ایف بی آر کے اہلکاروں نے چھاپے مارے، ان کا ریکارڈ اور کمپیوٹر اپنے قبضے میں لے لیے۔ اس پر کاروباری اداروں کا سخت ردعمل سامنے آیا کہ کاروباری برادری کو ہراساں کیا جارہا ہے، چھاپے سے پہلے اطلاع دینی چاہیے اور چھاپے کا اجازت نامہ ہونا چاہیے، یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ بھی ایف بی آر کا رشوت بٹورنے کا ایک طریقہ ہے۔ دوسری طرف ایف بی آر کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے پاس ان اداروں میں ٹیکس کی چوری کی مصدقہ اطلاعات تھیں اور چھاپے کے اجازت نامے کے ساتھ ہی چھاپا مارا گیا ہے۔ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے یہ تو تصدیق کرنا مشکل ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بڑے بڑے کاروباری ادارے ایف بی آر کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے ذریعے ٹیکس کی چوری میں ملوث ہیں اس میں بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور، میڈیکل اسٹور، بیکریاں، ہوٹل اور ریسٹورنٹ، بیوٹی پارلرز، کلینکس، ہسپتال، پرائیویٹ اسکولز اور دوسرے نجی تعلیمی ادارے، بلڈرز اینڈ ڈیوپلرز، لا کمپنیاں،کنسلٹنٹس اور ٹرانسپورٹرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی ناک کے نیچے بیٹھے ہوئے وزرا، ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز جن کو بار بار یاد دلایا جاتا ہے کہ اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائیں پھر ان کی رکنیت شپ عارضی طور پر معطل کی جاتی ہے تب جا کر وہ اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ لیکن وہ ٹیکس گوشوارہ تو بادل ناخواستہ جمع کرادیتے ہیں مگر سالانہ ٹیکس کی ادائیگی کی رقم دیکھی جائے تو پاکستانی عوام حیرت اور تعجب سے انگلیاں دانتوں میں دبا لیتے ہیں مثلاً سال گزشتہ کی ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق مشاہد اللہ خان نے 3611 روپے، فضل الرحمن صاحب نے 49902 روپے اور عمران خان نے 76244 روپے ٹیکس ادا کیا۔ اس سے زیادہ ٹیکس تو ایک مڈل کلاس تنخواہ دار ملازم کی تنخواہ سے کٹ جاتا ہے۔
پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح تقریباً 10 فی صد ہے جو دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ترین شرح ہے۔ اسی طرح دوسرے ممالک میں مجموعی ٹیکسوں میں بلاواسطہ (Direct) ٹیکس کی شرح زیادہ ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں بلواسطہ (Indirect) ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے جس میں سب سے اہم سیلز ٹیکس ہے جس کی شرح 17 سے 20 فی صد تک ہے۔ اس کے بعد ودہولڈنگ ٹیکس، ریگولیٹری ڈیوٹی، درآمدی ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی وغیرہ شامل ہیں۔ حال ہی میں کراچی الیکٹرونکس ڈیلرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے احتجاج کیا ہے کہ سستے موبائل جن کی قیمت 900 سے 2000 روپے تک ہے جنہیں غریب لوگ اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہیں ان پر سیلز ٹیکس 300 سے بڑھا کر 650 روپے اور 250 روپے ریگولیٹری ڈیوٹی لگادی گئی ہے اس طرح سستے موبائل خریدنے والا بھی حکومت کو پہلے 900 روپے ٹیکس ادا کرے گا، تب اس کو موبائل مل سکے گا۔ تو ایف بی آر اصل میں ٹیکس چوری کرنے والی بڑی بڑی مچھلیاں پکڑنے کے بجائے غریب لوگوں کے استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی لگا کر اپنا ہدف پورا کرتا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں لوگوں میں ایک رائے اس طرح بن رہی ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائیں، علاج پرائیویٹ ہسپتال میں کروائیں، حفاظت کے لیے پرائیویٹ گارڈ رکھیں، پانی خرید کر پئیں، بجلی کے لیے جنریٹرز یا یو پی ایس (UPS) استعمال کریں، پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا خود انتظار کریں تو پھر ہمیں ٹیکس دینے کی ضرورت کیا ہے۔ دوسری طرف جب پاکستانی عوام یہ دیکھتے ہیں کہ عوام کو سہولت دینے کے بجائے ٹیکس کی رقم بڑی بے دردی سے شاہ خرچیوں، پرتکلف دعوتوں، غیر ملکی دوروں اور غیر ملکی علاج پر ملک کی اشرافیہ خرچ کررہی ہے تو اس سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
ملک میں ٹیکس کی وصولیابی بڑھانے کے لیے بڑے بڑے ٹیکس چوری کرنے والوں کو پکڑنا ہوگا ٹیکس دینے والوں کو سہولتیں دینا ہوں گی اور ایف بی آر کو اپنا سسٹم بہتر کرنا ہوگا اور ڈائریکٹ ٹیکس پر توجہ دینا ہوگی تب ہی ٹیکس کی وسولیابی میں اضافہ ہوگا۔