نیا وزیر اعظم یا نئے انتخابات

283

Edarti LOHاب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ نیا وزیر اعظم یا نئے انتخابات ۔ یہ اختلاف دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ہے ۔عمران خان اور ان کی پارٹی کا مطالبہ ہے کہ صرف چہرہ بدلنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ پوری حکومت ہی بوریا بستر سمیٹ کر رُخصت ہو جائے ۔ محض وزیر اعظم کی تبدیلی کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلم لیگ ن ہی سے کوئی اور ۔ یعنی پرنالا وہیں گرتار ہے گا ۔ کچھ تجزیہ نگاروں نے تو نواز شریف کے متبادل افراد کے نام بھی دینے شروع کر دیے ہیں ۔ ان میں کوئی شریف خاندان کا فرد بھی ہو سکتا ہے چنانچہ شہباز شریف اور مریم نواز کے نام بھی لیے جا رہے ہیں ۔ا یسی خبریں بھی آ چکی ہیں کہ چھوٹے بھائی شہباز نے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنا منصب چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا ۔ لیکن اس کا وقت گزر چکا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ نئے الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں ، بس وزیر اعظم بدل دیا جائے ۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ بنیادی اختلاف نواز شریف کے مقابلے میں حزب اختلاف کے اتحاد میں رکاوٹ بنے گا ۔ حزب اختلاف میں کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کا موقف ہے کہ معاملات کو ایسے ہی چلنے دیا جائے ، عام انتخابات قریب آ گئے ہیں ان میں فیصلہ ہو جائے گا ۔ لیکن اگر اس اثنا میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پرعدالت عظمیٰ کا کوئی اہم فیصلہ آ گیا تب کیا لائحہ عمل ہوگا ۔ مثال کے طور پر اگر نواز شریف نا اہل قرار دے دیے جاتے ہیں تو وہ وزیر اعظم نہیں رہ سکیں گے ۔ انہوں نے مستعفی ہونے سے تو صاف انکار کر ہی دیا ہے اور ان کے حواریوں نے بھی اس فیصلے پر صاد کیا ہے ۔ گزشتہ جمعرات کو کابینہ کے اجلاس میں یہی طے ہوا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کیا جائے گا ۔ جمعہ کو مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی ہوا ہے جس میں پرانا موقف دوہرایا گیا ہے۔ خورشید شاہ نے بھی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس بلا لیاجس میں کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے خلاف حزب اختلاف کے متحدہ محاذ میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں ۔ تحریک انصاف کا نئے انتخابات کا نیا موقف سامنے آنے سے پہلے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس بات پر متفق ہیں تھے کہ صرف وزیر اعظم مستعفی ہوجائیں تاکہ آئین اور جمہوریت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ تاہم اب تحریک انصاف نئے انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے اور پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 2018ء ہی میں ہونے چاہییں۔پختونخوا ملی عوامی پارٹی پورے شدو مد کے ساتھ نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے ۔ پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے احتساب کے لیے صرف چند افراد کو منتخب کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو احتساب کی آڑ میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ پاکستان مزید کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ پاکستان میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہم احتساب کے مخالف نہیں لیکن اس میںامتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے ۔ اور جو بھی بد عنوانی میں ملوث ہوں ان سب کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ۔ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن کہیں سے تو شروعات ہو گی ۔ چنانچہ کیوں نہ سب سے پہلے حکمرانوں کا احتساب کیا جائے کیونکہ ملک میں ہر قسم کی بد عنوانی کی ذمے داری حکمرانوں ہی پر عاید ہوتی ہے خواہ وہ اس میں ذاتی طور پرملوث ہوں یا نہ ہوں ۔ کسی بھی ادارے میں گڑ بڑ ہو تو اس کا سربراہ ہی پکڑ میں آتا ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو روزانہ ہی کروڑوں اور اربوں روپے کے گھپلے سامنے آتے ہیں ۔ پاکستان میں پہلی بار حکمرانوں کے احتساب کا عمل شروع ہوا ہے ۔ اسے چنیدہ افراد کے احتساب کا نام دینا صحیح نہیں ہے ۔ جہاں تک ہر بد عنوان کے احتساب کا تعلق ہے تو جماعت اسلامی نے ’’احتساب سب کا ‘‘ کے عنوان سے اسے ایک مہم کا درجہ دے دیا ہے ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بالکل صحیح کہا ہے کہ کرپشن اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے ۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ شریف خاندان کے اثاثوں میں یکدم اور نہایت تیزی سے اتنا اضافہ کیسے ہو گیا ۔ اب حکومت نے یہ تو طے کر لیا ہے کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ نہیں دیں گے ۔ اور انہیں اپنی پارٹی سے باہر بھی کئی کاندھے مل گئے ہیں ۔ حزب اختلاف میں یہ بحث جاری ہے کہ نئے انتخابات کرا لیے جائیں یا نواز شریف سے استعفا لے کر انتخابات کرانے کی ذمے داری کسی اور کو سونپ دی جائے ۔ خورشید شاہ کا خیال ہے کہ حکمران محاذ آرائی چاہتے ہیں اور یہی خیال حکمرانوں کا حزب اختلاف کے بارے میں ہے ۔ عدالت عظمیٰ کو بھی فیصلہ کرنے کا موقع دے دیا جائے ۔ا ے این پی نے 1975ء سے احتساب کرنے کا نعرہ لگا دیا ہے ۔ ایسا ہی نعرہ 1977ء کے بعد بھی لگ چکا ہے ۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا ۔ ان کو بھی یہی مشورہ دیا گیا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب ۔ نہ احتساب ہوا اور نہ انتخابات ۔