نصر میزائل کی کامیابی بجا لیکن…!!

220

baba-alifگزشتہ دنوں پاکستان نے مختصر فاصلے پر مار کرنے والے میزائل ’نصر‘ کے نئے ورژن کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس نئے ورژن کی پہنچ 60 کلو میٹر سے بڑھا کر 70کلو میٹر کردی گئی۔ یہ شارٹ رینج میزائل میدان جنگ میں استعمال کرنے کے لیے بنائے گئے چھوٹے ایٹم بموں کو لے جانے کی استعداد رکھتا ہے، اپنے ہدف کو سو فی صد درست نشانہ بناسکتا ہے بلکہ بھارت کے ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے میزائل کی کامیاب لانچنگ کا مشاہدہ کیا اور کہا کہ ’’ پاکستان نے بھارت کے جنگی نظریے ’’کولڈ اسٹارٹ‘‘ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہے۔‘‘ دفاعی جرائد سمیت دنیا بھر کے مختلف حلقوں میں کافی عرصے سے بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اس سال کے اوائل میں انڈین آرمی چیف جنرل بیپن روات (Bipin Rawat )نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ بھارت کا جنگی نظریہ ’’کولڈ اسٹارٹ‘‘ آخر ہے کیا؟ اس نظریے کے تحت بھارت نے آٹھ مکمل فورسز بنائی ہیں جو آٹھ کمزور مقامات پر چند گھنٹوںکے اندر پوری طاقت سے حملہ کرکے پا کستان کو بے بس کرسکتی ہیں۔ اس جنگی حکمت عملی کو بھارت نے ’’کولڈ اسٹارٹ‘‘ ڈاکٹرائن کا نام دیا۔ اس کے جواب میں پاکستان کوکم طاقت والے چھوٹے ہتھیاروں سے لیس میزائل بنانے کی حکمت عملی اختیار کرنا پڑی۔ جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ یہ تزویراتی حکمت عملی دفاعی طور پر بنائی گئی ہے تاکہ بھارت کے جارحانہ عزائم کو حد کے اندر رکھا جاسکے۔
اس وقت بھارت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بھارت نے امریکا سے 15ملین ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے۔ اس کا ارادہ 250 ملین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے دورئہ اسرائیل کے دوران بھی بھارت نے اسرائیل سے اسلحہ کی خریداری کے معاہدے کیے ہیں۔ بھارت اسرائیل سے میزائل اور ائر ڈیفنس سسٹم بھی حاصل کر رہا ہے۔ ایک طرف امریکا اور اسرائیل مل کر بھارت کو مضبوط بنا رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت کے فرانس سے جدید ترین رافیل جنگی طیارے خریدنے کے سودے ہوچکے ہیں۔ جلد یا بدیر امریکی F-16 طیارے بھی بھارت میں تیار ہونا شروع ہوجائیں گے۔ جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے ہیں بھارت سرکار بڑی شدت سے پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کررہی ہے۔
افغانستان میں امریکی کامیابی کے کم ہوتے آپشن پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں خرابی اور بگاڑ کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی سینیٹرجان مکین نے پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی سے باز رہے ورنہ امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس سے پہلے ناٹو سیکرٹری جنرل جنزسٹولٹن برگ نے کہا تھا ’’یہ بات قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے کہ ایک ملک ایسے دہشت گرد گروہوںکو تحفظ فراہم کرے جو کسی دوسرے ملک میں حملے کرتے ہوں۔‘‘ جان مکین کو پیش کی جانے والی پینٹاگون کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی پاکستان پر بڑے الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے افغانستان میں امریکی پالیسی ناکام ہوگئی ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ سنجیدگی سے تعلقات پر نظرثانی کررہا اور دھمکیاں دے رہا ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ کی سربراہی میں امریکا دنیا بھر میں اپنی بالادستی کو ازسرنو مضبوط کرنے کی حکمت عملی پر عمل کررہا ہے جس کے لیے امریکا ایک بڑی جنگ کی تیاری کررہا ہے۔ ٹرمپ حکومت کی تزویراتی کمیٹی کے سربراہ اسٹیو بینن کا کہنا ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی جنگ کو وہ بڑی جنگ میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی کابینہ میںچھ فوجی افسران کو وزیر یا مشیر بنایا ہے۔ یہ ایک فوجی کابینہ ہے جو داخلہ، دفاع، سلامتی امور اور اسٹرے ٹیجک معاملات کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ نئے عالمی نظام کو وضع کرنے کے لیے جنگ کا ماحول پیدا کریں۔ پہلے مرحلے میں انہوں نے مسلمان ممالک کے درمیان جنگ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ بعض مسلمان ممالک باہم نبرد آزما ہیں۔ مگر امریکا کا اصل نشانہ پاکستان ہے کہ بوقت ضرورت کوئی ملک اس کی مدد کو نہ آئے۔ ایک طرف بھارت روزانہ کنٹرول لائن پر بمباری کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں افغانستان بھی اس مشق میں مصروف رہا۔ اور اب خیر سے ایران بھی پا کستان پر گولے پھینک رہا ہے۔ بھارت کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جارہا ہے جس کا نشانہ پاکستان کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے۔
نصر میزائل کی رینج بڑھانے کی حالیہ کامیابی ہو یا کوئی اور جنگی تیاری ہمارا مقصد محض اپنا دفاع ہے۔ ہماری تمام جنگی صلاحیتوں اور حکمت عملی کا مرکزو محور بھارت کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں چاہے جتنا ظلم وستم کرلے‘ آئے دن پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا رہے۔ صاف نظر آرہا ہے ٹرمپ پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے کی تیاریا ں کررہا ہے، لیکن ہم چوں کرنے کی ہمت نہیں کرتے احتجاج تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم اسلحہ سازی میں نت نئے تجربات کرنے اور اپنی دفاعی پالیسی پر نازاں ہیں۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ دفاع ایک وقتی اور عارضی بندوبست ہوتا ہے، دشمن کے مقابل اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا مستقل انتظام نہیں۔ سر باسل ہنری لڈل ہارٹ دفاع کو ایک ’’رکا ہوا حملہ Attack Halted‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد جب تک حملہ نہ کیا جائے کامیابی ممکن نہیں۔ جب تک کوئی قوم جارحانہ عزائم نہیں رکھتی اس وقت تک کسی قابل ذکر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اولین جنگیں دفاعی تھیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ مدینہ میں اسلام کے مخصوص مفہوم اور تصورات کو زندگی کا ضابطہ اور مرکزبنا دینے کے ساتھ ساتھ آپ ؐ ان تیاریوں میں بھی مصروف تھے جن کے ذریعے آپؐ کفر کی مادی طاقت کو مادی طاقت کے ذریعے مٹاسکیں۔ یوں آپ ؐ نے پہل کرتے ہوئے جہاد کی قوت سے ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اسلام کی دعوت کو مدینہ سے باہر پھیلانے کے لیے آپ ؐ نے ایک فوج تیار کی اور ازخود ایسے اقدامات کیے جن سے یہودیوں اور منافقین پر رعب طاری ہوا اور بڑی جنگوں کا ماحول پیدا ہوا۔ جزیرہ نما عرب میں گشت اور فوجی مہمات کی روانگی کے ذریعے آپؐ نے پہل کرتے ہوئے قریش کو چیلنج کیا جس کا نتیجہ غزوہ بدر کی صورت میں رونما ہوا جو مسلمانوں کی فتح اور قوت میں اضافے کا باعث بنا۔ غزوہ خندق میں آپ ؐ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی لیکن دفاع کو مستقل آپشن قرار دینے کے بجائے آپ ؐ نے اسے ایک رکا ہوا حملہ باور کیا اور مکہ پر حملہ کرکے اسے فتح میں تبدیل کردیا۔ جب رومی لشکر اسلامی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہوا تو آپؐ نے دفاع پر انحصار نہیں کیا بلکہ پورے عرب کو قابل حرب گروہوں سے خالی کرکے تیس ہزار کا لشکر ’’جیش العسرہ‘‘ لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کی اس پیش قدمی اور جارحانہ کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومیوں نے تبوک سے پیچھے ہٹ کر شام میں محصور ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ آپ ؐ نے ثابت کردیا کہ اسلام کا تصورِ جنگ دفاعی نہیں جارحانہ ہے۔ مسلمانوں نے مدینہ تک محدود رہنے کے بجائے باہر کی طرف دیکھا اور پوری دنیا پر چھا گئے۔ مغربی اقوام نے یہ جارحانہ حکمت عملی مسلمانوں سے مستعار لے کر دنیا بھر میں کامیابیاں حاصل کیں۔ بر طانیہ محض چار جزیروں کا چھوٹا سا ملک تھا لیکن اس پالیسی پر عمل کرکے اس نے صدہا سال دنیا کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ جرمنی نے بیسویں صدی میں باہر کی طرف دیکھا اور اکیس برس کی قلیل مدت میں دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کو روند ڈالا۔ اسرائیل پہلے دن سے اپنی سرحدوں سے باہر دیکھ رہا ہے۔ آج تمام عرب ممالک اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں لیکن کوئی فائدہ نہیں اٹھایا سوائے نقصان کے۔ ہم جارحانہ کے بجائے محض دفاعی حکمت عملی تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہم نے باہر کی طرف دیکھنا بند کردیا ہے۔ ہم اندروں بیں ہوگئے ہیں۔ آج ہم ایٹمی قوت ہونے، دنیا کی بہترین لڑاکا افواج رکھنے اور جدید ترین اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود غریب کی جورو بنے ہوئے ہیں۔ کمزور اور بے بس۔ ایسے میں نصر میزائل کی کامیابی پر خوش ہونا کسی لطیفے پر ہنسنے کے مترادف ہے۔