کیا آئندہ بھی احتساب ہوسکے گا

94

زین صدیقی
پاناما لیکس سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے، تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آ چکی ہیں اور وزیر اعظم نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے ساتھ متحدہ قومی مومنٹ، ق لیگ، پاک سر زمین پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، جے یوآئی (س) سمیت تمام جماعتوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ وزیر اعظم استعفا دیں، اسی کے ساتھ ہی سیاسی رہنما بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں، رانا ثنا اللہ نے کہتے ہیں کہ وزیراعظم عدالت عظمیٰ جو کہے گی وہ مانیں گے، جاوید ہاشمی نے کہا کہ ملک میں کوئی صادق و امین نہیں ہے۔ عمران خان، سراج الحق اور خورشید شاہ بضد ہیں کہ ویزاعظم استعفا دیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ قوم کے سامنے آچکی ہے جس میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے افراد ان کے ملک وبیرون ملک کاروبار، جا ئداد اور منی لانڈرنگ سے متعلق تمام تفصیلات سامنے آچکی ہیں، جس میں حقائق چھپانے، غلط بیانیوں، غلط معلومات کی فراہمی کا بھی ذکر کیا گیا، پاناما لیکس کی تحقیقات شروع ہونے سے قبل ایسا لگتا تھا کہ شاید صرف ان ہی کمپنیوں سے متعلق تحقیقات ہوں گی جو شریف خاندان کی بیرون ممالک قائم ہیں اور شریف خاندان کو ان ہی کمپنیوں سے متعلق حساب کتاب دینا ہوگا، لیکن اس کیس کی تحقیقات پر سب کھل کر سامنے آئے گا یہ علم نہیں تھا۔
حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کر کے اسے اندازوں اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا ہے، وزرا وضاحتیں بھی پیش کر رہے ہیں، قطری شہزادے کا بیان نہ لینے کو بھی جواز بنایا گیا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ شریف خاندان کے تمام افراد کے بیانات میں تضادات ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جے آئی ٹی میں سوالات کے جوابات دینے کے لیے تیاری نہیں کی تھی یا اگر کی تھی تو ان سے کیے گئے سوالات ان کی سوچ سے ہٹ تھے جو ان کے لیے پریشانی کا سبب بنے اور اسی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، حسن نواز، حسین نواز، کیپٹن (ر) صفدر، اسحاق ڈار اور مریم نواز کے بیانات میں تضادت نکلے، یہ تضادات اس لیے بھی نظر آئے کہ جے آئی ٹی میں پیشیوں کے بعد شریف خاندان کے افراد نے میڈیا کے سامنے جو باتیں کیں وہ اور جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ریکارڈ کر ائے گئے بیانات سے مختلف ہیں۔
شریف خاندان سے احتساب کا معاملہ تاریخ رقم کر رہا ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا احتساب ہو رہا ہے، اس احتساب کے پیچھے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جدوجہد تھی جب کہ جماعت اسلامی بھی اس کیس کی فریق رہی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق تو یہاں تک بار ہا کہہ چکے تھے کہ احتساب کا عمل قیام پاکستان کے بعد سے شروع کیا جائے اور احتساب کا عمل ان سے شروع کیا جائے، بد قسمتی سے ملک کے کسی حکمران یا سیاست دان نے کبھی یہ پیشکش نہیں کی کہ وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک پولیس اہل کار سے لیکر اعلیٰ افسر تک، ایک کلرک سے لیکر بڑے سرکاری افسر تک اور ایک کونسلر سے لیکر اعلیٰ سیاسی رہنما تک اور ایک رکن اسمبلی سے لیکر وزیر اعظم تک سب میں کرپشن سرائیت کرتی رہی ہے، جب نظام کی بنیاد ہی بدنیتی اور کرپشن پر ہو تو عمارت لازمی کمزور ہوتی ہے، ملک ترقی نہیں کرپاتے، ملک کے مختلف ملکوں میں ایسی مثالیں بھی رقم ہوئی ہیں کہ حکمرانوں پر الزام لگا اور انہوں نے اقتدار کو خیرباد کہہ کر اپنے آپ کو تفتیش کے لیے پیش کردیا۔ شریف خاندان کے احتساب کا عمل بھی بڑے دباؤ کے بعد شروع ہواہے، وزرا اور مریم نواز شریف نے وزیر اعظم کے استعفا نہ دینے کا اعلان کیا ہے، ابھی صرف رپورٹ آئی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے نتیجے میں وزیر اعظم کو مسند اقتدار بھی چھوڑنا پڑ سکتا ہے، نااہل بھی ہوسکتے ہیں، بیرون ملک کمپنیاں ختم کر کے پیسہ وطن لانے کے احکامات بھی مل سکتے ہیں، فیصلہ عدالت عظمیٰ کو کرنا ہے اسی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
احتساب کے تاریخی عمل سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، کیا احتساب کا یہ عمل مستقبل میں بھی جاری رہے گا، کیا دیگر سیاست دانوں کا بھی احتساب ہو سکے گا، احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے کیا نیچے تک جائے گا، کیا تحریک انصاف ن لیگ کی طرح دوسرے حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف تحریک چلائے گی، کیا کرپشن کے احتساب کا طریقہ کار آئندہ بھی کو ئی دھرنا ہوگا یا اسمبلی میں کوئی بل منظور ہو گا، اگر کوئی بل منظور ہو گا تو کیا اس کے مطابق کوئی وزیر اعظم خود کو احتساب کے لیے پیش کرے گا، یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آنے نہایت ضروری ہیں، اب احتساب کا عمل شروع ہوا ہے تو پھر آئندہ کا لائحہ عمل طے ہو نا چاہیے، ایسا لائحہ عمل جو ملک کے عظیم ترین مفاد میں ہو۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے، اقتدار اور اختیار اللہ کی جانب سے قوم کی امانت ہوتا ہے، ایک مسلم حکمران کا یہ فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو اقتدار اور اختیار دیا ہے اس میں خیانت نہ کرے، مگر بدقسمتی سے ماضی میں بھی ملک پر جو حکمران مسلط رہے، انہوں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی، ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت قوت بخشی ہے، جو اسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا سکتی تھی، اس کے وسائل جیبوں میں جانے کے بجائے اسی پر خرچ ہوتے تو یہ ملک سونے جیسا تھا لیکن اسے مٹی میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، آج جے آئی ٹی کی رپورٹ پر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی خوش ہیں اور وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہی ہیں، زرداری صاحب پر بھی سوئس بینکوں میں پیسہ رکھنے کے الزامات ہیں، عمران خان پر بھی بنی گالا اراضی کیس چل رہا ہے، اب احتساب کے عمل کے اس آغاز کے بعد انہیں بھی تیار رہنا چاہیے، جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بغلیں بجانے اور مٹھائیاں کھانے اور کھلانے والے سیاست دان اگر سچے ہیں اور وطن اور عوام سے سچی محبت رکھتے ہیں تو آگے آئیں اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرکے صادق وامین ثابت کریں۔
70 سال میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا تھا، ملک میں پانی بجلی وصحت وصفائی کا نظام دنیا کے کئی ممالک سے مثالی ہو سکتے تھے، عاقبت نا اندیش سیاست دانوں نے اسے اس قابل ہی نہیں سمجھا، اسی لیے پاکستان پیچھے رہ گیا، الیکشن کمیشن میں گوشوارے جمع کرانے والے تمام سیاست دانوں کا احتساب ہونا چاہیے جو خود کو غریب ظاہرکرتے ہیں یا کم ترین آمدن والا ظاہر کر تے ہیں، ان کی تمام جائدادوں کا ریکاڈ منظر عام پر آنا چاہیے، جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد اگلی باری کس سیاست دان کی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا، لیکن یہ عمل اس بات پر منحصر ہوگا کہ اس کے لیے کوئی احتساب کا شفاف نظام وضع ہو، ورنہ ایسا نہ ہو کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو انتقام کا نشانہ بناتے رہیں اور ایجی ٹیشن کی سیاست چلتی رہے اور ملک پھر پیچھے کی طرف چلاجائے۔