جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کا 44 واں یوم تاسیس

144

راجہ ذاکر خان
جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان کا قیام 13جولائی 1974ء کو عمل میں آیا، اپنی تاسیس سے لے کر آج تک جماعت اسلامی نے اسلامی نظام کے قیام، عوامی خدمت اور تحریک آزادی کشمیرکو منزل سے ہم کنارکرنے کے لیے جو بھرپور کردار ادا کیا وہ تاریخ کا درخشاں اور شاندار باب ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کا دن 13جولائی اس لیے رکھا گیا کہ اسی دن سری نگر میں ایک اذان مکمل کرنے کے لیے ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں 22مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اللہ کی کبریائی بلند کی تھی۔ جماعت اسلامی اسی منزل کی جانب گامزن ہے اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کررہی ہے۔ تاسیس کے فوراً بعد مولانا عبدالباری مرحوم جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر گلگت بلتستان کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ ان کے بعد کرنل (ر) رشید عباسی مرحوم امیر منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد عبدالرشید ترابی اور بعد ازاں سردار اعجاز افضل خان، عبدالرشید ترابی اس کاروان سخت جاں کے امیر رہے۔ اب اراکین جنرل کونسل نے سیشن 2017تا 2020ء کے لیے ڈاکٹر خالد محمود کو اپنا امیر چنا۔ ڈاکٹر خالد محمود 16جولائی 2017ء کو اپنی ذمے داری کا حلف اٹھایا۔ جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تاسیس سے لے کر اب تک دستور کے مطابق تسلسل کے ساتھ جمہوری عمل اور ووٹ کی پرچی کے ذریعے اپنے امیر کو منتخب کرنے میں ایک دن کی تاخیر نہیں کی۔ امیر جماعت کا انتخاب ہر تین سال بعد اراکین جنرل کونسل خفیہ رائے دہی سے کرتے ہیں۔ مرکزی مجلس شوریٰ اراکین کے لیے امیر کے انتخاب میں سہولت کے لیے تین نام تجویز کرتی ہے۔ لیکن اراکین جنرل کونسل ان ناموں کے علاوہ بھی اگر کسی کو چاہیں تو امیر منتخب کر سکتے ہیں۔ امیر کے انتخاب کے لیے جو اوصاف ہونے چاہئیں ان میں تقویٰ، پرہیزگاری، فہم وفراست اور ٹیم کو لے کر چلنے کی صلاحیت۔ ان اوصاف کو سامنے رکھ کر ہر رکن جنرل کونسل دستور کے مطابق علاقائی، قبیلائی یا لسانی تعصبات پر نہیں بلکہ اللہ کے سامنے جوابدہی کے نقطہ نظر سے ووٹ دیتا ہے۔ انتخاب کے دوران کوئی فرد لابنگ یا دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ دستور کے مطابق ایسا کرنے والا فرد چاہے مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن ہو یا رکن جنرل کونسل وہ معطل کر دیا جائے گا۔ مضبوط تنظیمی ڈھانچے اور دستور پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل صاف اور شفاف ہوتا ہے، جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچے کا تصور کسی دوسری جماعت یا پارٹی میں نہیں۔
مرکزی مجلس شوریٰ کی مشاورت سے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن کو امیر جماعت اسلامی اور مرکزی ٹیم لے کر چلتی ہے۔ جماعت اسلامی میں فیصلے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی ایک انقلابی تحریک ہے جو موجودہ فرسودہ نظام تبدیل کرکے اسلام کا دیا ہوا نظام چاہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاؑ کو اپنی واحدانیت کے اقرار اور دنیا میں دین اسلام کے غلبے کے لیے مبعوث فرمایا کہ تمام ادیان باطلہ کو مٹا کر اللہ کے دیے ہوئے نظام کو غالب اور نافذ کیا جائے۔ یہی پیغام نبی آخرالزمان کا تھا۔ آج ہمارا دین بطور نظام حیات مغلوب ہے اور جماعت اسلامی اسی لیے اٹھی ہے کہ وہ دین کو بطور نظام حیات قائم کرے۔ مختلف ادوار میں جماعت اسلامی کی ذمے داری جن قائدین کے کندھوں پر رہی، انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں لگاکر ان کی آبیاری کی۔ جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی، اصلاح معاشرہ، عوامی خدمت اور تحریک آزادی کشمیر میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے پیش نظر نسل نو کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کے لیے آزاد کشمیر بھر اور گلگت بلتستان میں 4سو سے زائد اسکولز اور کالجز قائم کیے۔ ان اسکولوں میں ہزاروں بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے اور ایک لاکھ کے قریب زیر تعلیم ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں قرآن کی تدریس اور فہم قرآن کے لیے 150سے زائد دینی ادارے قائم کیے جن میں ہزاورں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی ان اداروں کے ذریعے ایسے علماء تیار کیے جو مسلکی اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر دین کا ابلاغ کررہے ہیں جو امت کو امت واحدہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دور جدید کے چیلنجز سے آگاہ ہیں۔ عوامی خدمت کے میدان میں جماعت اسلامی نے کارہائے نمایاں سرانجام دے ہیں۔ 17ہزار یتیم بچوں کی کفالت جماعت اسلامی اور اس کے ادارے کررہے ہیں۔ ان بچوں کی تعلیم کے سارے اخراجات اور دیگر مسائل بھی جماعت کے ذمے ہیں۔ اس کے علاوہ سیکڑوں بیواؤں اور بے سہارا لوگوں کی کفالت جماعت اسلامی اور اس کے ادارے کررہے ہیں۔ زلزلہ، سیلاب یا اور قدرتی آفت میں جماعت اسلامی کے رضا کار سب سے آگے نظر آئیں گے۔ صحت کے شعبے میں بھی جماعت اسلامی نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ غریب اور نادار مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہسپتال اور ڈسپنریاں اس مقصد کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں۔ زلزلے کے موقعے پر لاکھوں افراد کا مفت علاج کیا گیا۔ اسی طرح عوامی فلاح کے دیگر منصوبے جن میں پینے کے صاف پانی اور دیگر سیکڑوں منصوبے مکمل ہو چکے اور سیکڑوں زیر تکمیل ہیں۔ جماعت اسلامی غریب اور نادار بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ ان بچوں کو بیرون ملک اسکالرشپ پر داخلے کروائے جاتے ہیں جب کہ یتیم بچیوں کی شادی کے اخراجات بھی برداشت کیے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی عوامی خدمت بلا تخصیص کر رہی ہے جو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہیں۔ جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے تحریک آزادی کشمیرکے لیے سب سے زیادہ عملی کام کیا۔ مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کرنے والوں کی بے مثال خدمت کی اور ابھی بھی ان کی خدمت کی جا رہی ہے۔ مہاجرین کے کیمپوں میں ان کے مسائل کے حل اور ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ROKM سمیت دیگر ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ جماعت کے سابق امیرعبدالرشید ترابی نے دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد ہوتا رہا جن میں مختلف ممالک کے سیکڑوں کی تعداد میں مندوبین اور سربراہان مملکت شریک ہوتے رہے جنہوں نے عبدالرشید ترابی کی تحریک پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا اعلان کیا اور متفقہ قراردادیں بھی منظور کیں۔ ان ہی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں او آئی سی میں کشمیر کنٹیکٹ گروپ کا قیام عمل میں آیا اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر فورموں پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا گیا۔ ابلاغ کے محاذ پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مختلف زبانوں میں سیکڑوں کتب اور میگزین شائع ہو رہے ہیں ان سے دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور مسئلہ کشمیر سے آگاہی حاصل کر رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کو تحلیل کرنے کے لیے جب چارنکاتی فارمولا پیش کیا تھا تو جماعت اسلامی کے سوا سب ڈھیر ہو گئے۔ اس وقت بھی جماعت اسلامی اور اس کی قیادت ہی کھڑی رہی چاہے وہ سردار اعجااز افضل خان ہوں یا عبدالرشید ترابی۔ باقی ساری آزادکشمیرکی قیادت چار نکاتی فارمولے کی ٹرین پر چڑگئی تھی۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے تحریک آزادی کشمیر کو اس حادثے سے بچایا۔ آزاد کشمیر سے جن لوگوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاکر جہاد میں عملی حصہ لیا ان کا تعلق بھی جماعت ا سلامی سے ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ہر قبرستان میں آزاد کشمیرکے شہداء موجود ہیں۔ آزادی کی منزل تک جماعت اسلامی کشمیری بھائیوں کے ساتھ رہے گی یہ ہمارا یمانی اور دینی فریضہ بھی ہے اور جماعت اسلامی کے دستور کاحصہ بھی ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے ہاتھوں سے کروڑوں نہیں اربوں روپے مختلف منصوبوں پر خرچ ہوئے۔ مگر کیا مجال کے کسی قیادت اور کارکن پرکوئی انگلی اٹھائے، یہاں ایک بات ذہین نشین رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکن بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اسی طرح انسانی خواہشات رکھتے ہیں جس طرح دوسرے افراد ہیں۔ یہ کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں ہے، نہ ہی کوئی یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔ کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں لیکن خیرغالب ہے۔ ان لوگوں کے دامن صاف ہیں، اس کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ جماعت اسلامی کے اس شاندار کردار کا اعتراف پاکستان کی علیٰ عدلیہ نے بھی کیا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس کچھ تھا ہی نہیں تو کرپشن کیا کرتے؟ امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر عبدالرشید ترابی رکن اسمبلی رہے۔ ایک دفعہ جیت کے نتیجے کو دوسرے دن تبدیل کروایا گیا وہ الگ بحث ہے، جب رکن اسمبلی تھے تو پہلی مرتبہ کسی کو پتا چلا کہ ایم ایل اے فنڈز بھی ہوتا ہے، محکمہ لوکل گورنمنٹ نے عبدالرشید ترابی کے حلقے کو ماڈل حلقہ قرار دیا تھا یہ ریکارڈ پر موجود ہے، 365 اسکیمیں بلا تخصیص دیں یہ نہیں دیکھا کہ کس علاقے کے لوگوں نے ووٹ دیے تھے کہ نہیں دیے تھے سب کو برابر حق دیا، بلکہ جس علاقے کے لوگوں نے زیادہ ووٹ دیے اور دوسرے علاقے کے لوگوں نے کم ووٹ دیے تھے یہ نہیں دیکھا بلکہ جس کا حق جتنا آبادی کے بنیاد بنتا تھا وہ دیا۔ عبدالرشید ترابی نے دو بار جماعت اسلامی کو پارلیمانی نمائندگی دلائی اور جماعت کو سیاسی طور پر آگے بڑھایا۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے کردار پیش کیا ہے، کوئی ہے تو سامنے آئے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ اس وقت لاکھوں لوگ وابستہ ہیں، ہزاروں ارکان ہیں۔ آزاد کشمیرگلگت بلتستان اور مہاجرین کے ہر حلقے میں ایک طاقت کے طو رپر موجود ہے، وقت قریب ہے کہ عوام جماعت اسلامی پر ہی اعتماد کریں گے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر گلگت بلتستان چوںکہ 1974ء میں ہی قائم ہوئی تھی اس لیے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے بعد 1977ء میں مارشل لا لگ گیا، 1985ء میں پاکستان کی طرف سے ایک شق لاگو ہوئی جس کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے انتخاب میں براہ راست حصہ نہیں لیا تھا بلکہ تین جماعتوں کا اتحاد بنا تھا جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ تھی۔ اسی اثناء میں مقبوضہ کشمیرکے اندر تحریک آزادی کشمیر پوری قوت کے ساتھ شروع ہوگئی ہزاروں کی تعدا د میں مقبوضہ کشمیر سے لوگوں نے ہجرت کرکے آزاد کشمیرکا رخ کیا، آزاد خطے سے جماعت اسلامی ہجرت کرکے آنے والوں کی رہائش اور دیگر ضروریات کی طرف لگ گئی، جماعت اسلامی نے مشاورت کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے اس بڑے چیلنج سے عہدہ براء ہونے کے لیے اپنی ساری تونائیاں اس کی کامیابی کے لیے صرف کیں۔ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر نے اس تحریک کی تمام ضروریات پوری کیں۔ 1990ء کے انتخابات کے موقع پر یہ تحریک عروج پر تھی تو جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے مشاورت سے فیصلہ کیا کہ اگر اس موقع پر جماعت اسلامی انتخابی میدان میں جاتی ہے تو ساری توجہ اور وسائل انتخابی معرکے میں لگیں گے تو تحریک آزادی کشمیر متاثر ہوگی، جماعت اسلامی نے انتخابات میں نہ جانے کا فیصلہ کیا اور اپنی ساری توانائیاں تحریک آزادی پر صرف کیں۔ تحریک کے تقاضوں کے مطابق سارے محاذوں پر کام کرکے تحریک آزادی کشمیر کو ایک توانا آواز اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر فلش پوائنٹ بنادیا۔ تحریک آزادی کشمیر کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے بیس کیمپ کے کردار کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی نے 1996ء میں مشاورت سے پہلی بار پوری قوت کے ساتھ میدان سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا، انتخابات میں جماعت اسلامی کو اچھے ووٹ بینک کے ساتھ پارلیمانی نمائندگی بھی ملی، جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی نے اس پارلیمانی نمائندگی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے حقوق کے لیے جنگ لڑی۔ 2006ء میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا، اس مرتبہ عبدالرشید ترابی 2100کی لیڈ سے جیت گئے تھے مگر رات کو نتائج تبدیل کروائے گئے۔ دوسرے دن عبدالرشید ترابی کی ہار کا اعلان کروایا گیا، ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے دیگر امیداروں نے اچھے ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان انتخابات میں بھی ایک سازش کے تحت جماعت اسلامی کو اسمبلی سے باہر کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے 2011ء میں ایک نومولود جماعت ن لیگ آزاد کشمیر کی پیش کش پر مشاورت کے بعد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا، اس بار بھی جماعت اسلامی کی جیتنے والی سیٹ عبدالرشید ترابی کے حلقے میں بغاوت کروائی گئی اور ایک فرد کو عبدالرشید ترابی کے خلاف کھڑا کیا گیا تاکہ ایک تو جماعت اسلامی کو اسمبلی میں نہ آنے دیاجائے اور دوسرا راجہ فاروق حید ر اور نومولود مسلم لیگ ن کا سر کچلا جائے۔ جماعت اسلامی مخالف لابیاں اپنے اہداف میں کامیاب ہوئیں اور جماعت اسلامی پارلیمانی نمائندگی حاصل نہ کرسکی۔ جماعت اسلامی نے 2016ء میں بھی مسلم ن آزاد کشمیر نے پھر پیش کش کی کہ مل کر سیاسی حکمت عملی اپناتے ہیں، جماعت اسلامی نے اس پیش کش پر مشاورت کی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا، مسلم لیگ ن نے جماعت اسلامی کو دوبراہ راست سیٹیں، دو مخصوص سیٹیں، مشیر حکومت اور حکومت بننے کی صورت میں اداروں میں بھی نمائندگی دینے کا معاہدہ کیا۔ جماعت اسلامی نے اس پر اتفاق کیا اور جماعت اسلامی نے اخلاص کے ساتھ ہر حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی مہم چلائی اور جیت کا فیصلہ جماعت اسلامی کے فیصلہ کن ووٹ سے ہی ہوا۔ اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو دوسیٹیں دیں۔ اس وقت جماعت اسلامی دوسیٹوں کے ساتھ اسمبلی میں موجود ہے تحریک انصاف کی قیادت اسمبلی سے باہر ہے اور پیپلزپارٹی جس کی حکومت تھی وہ محض تین سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کی کامیاب حکمت عملی تھی۔ موجودہ اسمبلی میں پیپلزپارٹی، مسلم کانفرنس، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی برابر برابر نمائندگی ہے۔ جماعت اسلامی کو یہ نمائندگی ووٹ دینے کے عوض ملی ہے۔ جب سے جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کی قیادت حکومت میں آئی ہے اسمبلی اور حکومت تحریک آزادی کی پشتیبان بن گئی ہیں۔ قومی وقار میں اضافہ ہوا ہے نظام کی اصلاح کا کام شروع ہوا ہے۔ میرٹ کی بحالی کے لیے این ٹی ایس کے ذریعے اساتذہ کرام کی بھرتیوں اور پبلک سروس کمیشن کی تشکیل نو جیسے اقدامات سے بہتری پیدا ہوئی ہے جماعت اسلامی خیر کے کاموں میں تعاوں کرے گی اور برائی کے کاموں میں تعاون نہیں کرے گی۔
جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر ڈاکٹر خالد محمود نے بطور نائب امیر عبدالرشید ترابی کے دست راست رہے ہیں اس موقع پر عبدالرشید ترابی نے اعلان کیا ہے کہ اراکین جنرل کونسل، کارکنان جماعت اور ہمدردان اسی طرح نو منتخب امیر ڈاکٹر خالد محمود کے ساتھ تعاون کریں جس طرح انہوں نے میرے ساتھ تعاون کیا ہے میں ذمے داریوں سے سبک دوش ہوا ہوں مشن سے نہیں میں بطور کارکن نو منتخب امیر ڈاکٹر خالد محمود کے ساتھ تعاون کرتا رہوں گا، امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی نے سب سے پہلے نو منتخب امیر ڈاکٹر خالد محمود کو فون پر اطلاع دی اور استقامت کی دعا دی۔