بہت کچھ دائو پر لگا ہے

171

zc_Muzaferابھی تو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سامنے نہیں آیا صرف جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آئی ہے ۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ بعض اپوزیشن لیڈروں اور پارٹیوں کو پہلے سے بہت کچھ معلوم ہے یا کہیں سے ان کو اشارہ مل گیا ہے کہ تیار رہو… پیپلز پارٹی خم ٹھونک کر میدان میں آ گئی ہے کہ وزیر اعظم سازش کرنے والوں کا نام بتائیں ۔ جمہوریت کو ہم بچا لیں گے۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم عمران خان کا نعرہ لگا دیا ہے ۔ ق لیگ نے بھی فارق ستار اور مصطفی کمال سے رابطہ کیا ۔ گویا سب کو امید ہے کہ میاں نواز شریف جا رہے ہیں اورنئے الیکشن ہونے جا رہے ہیں ۔ ہو گا کیا… یہ ابھی ایک رازسے ۔ لیکن یہ محض دلچسپ انکشافات، الزامات ثبوتوں اور نا اہلی کی جنگ نہیں ہے پاکستان کا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے ۔ کسی ملک کے وزیر اعظم کا اتنے طویل عرصے تک تماشا بنا رہنا بھی ایک افسوس ناک امر ہے ۔ اس کا ذمے دار خواہ پاناما لیکس کو قرار دیا جائے یا عمران خان ، ایجنسیوں اور میڈیا کو یاخود حکومت اور اس کے مشیروں کی نا اہلی کو… لیکن اس صورتحال کے نتیجے میں ساری دنیا میں پاکستان کا مذاق بنا ہوا ہے ۔یہ بات کہنے کا وقت بھی گزر گیا کہ اگریوں کر لیا جاتا یا ایسے ویسے کر لیا جاتا تو حالات یہاں تک نہیں پہنچتے ۔ اب تو یہ بات کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جار ہی ہے کہ اب کیا ہونا چاہیے ۔ حکومتوں کے آنے جانے اور قومی معاملات کے جاری رہنے کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جس روز ہمیںیہ سمجھ میںآ گیا اس روز پاکستان کی قومی پالیسیوں کی بہت سی گتھیاں سلجھ جائیں گی۔ مثلاً مستقل کشمیر پالیسی وجود میں آجائے گی ۔ معاشی ترقی کے چند لاکھ کے منصوبے سے لیکر کھربوں ڈالر کے منصوبوں تک کے بارے میں ہر آنے اور جانے والے حکمران کی پالیسی یکساں ہو جائے گی ۔ یہی معاملہ دفاع کا بھی ہو گا ۔ بس یہ بات سجھنے کی دیر ہے … گو کہ اس میں اب بہت دیر ہو چکی ہے ۔ لیکن اب تو سمجھ لینا چاہیے ۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کومعاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے میں میاں نواز شریف کا بڑا کردار ہے ۔ اور شاید موجودہ صورتحال میں میاں صاحب اس حوالے سے ووٹوں کی دوڑ بھی جیت جائیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کے اقتصادی ترقی کے کارناموں کے مقابلے میں کرپشن ، دروغ گوئی اور دو عملی کے جرائم زیادہ بھیانک ہیں ۔ ان کی دولت میں اضافے کی رفتار بے تحاشا ہے اس کا سبب بھی واضح ہے کہ ان کے کاروبار کو اقتدار کا پہیہ لگا ہوا تھا ۔ لیکن ان ساری باتوں سے قطع نظر پاکستان کے اداروں ، عوام اور سیاسی جماعتوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ میٹرو ٹرین ، بس سروس یا جنگلا ٹرین ،سرکلر ریلوے ، موٹر وے ، بجلی کے منصوبے اور سب سے بڑھ کر سی پیک … میاں نواز شریف کے منصوبے نہیں ہیں ۔ یہ سب پاکستان کے منصوبے ہیں ۔ جس دن ہمارے رہنمائوں اور اداروں نے یہ سیکھ لیا اس دن ہر معاملے میں پاکستان کی مستقل پالیسی از خود بن جائے گی ۔ اگر آج میاں نواز شریف کی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن ہیں تو کل آنے والا حکمران لازماً چیئر مین تبدیل نہ کرے بلکہ ان خطوط کو استوار کیا جائے جن پر کسی بھی چیئر مین کو کام کرنا ہے ۔ پاکستان کی ایٹمی پالیسی ، بھٹو ، ضیاء الحق ، بے نظیر اور پھر میاں نواز شریف کے ادوار میں ایک کیسے رہی … اس پالیسی کے تسلسل نے ہی پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا ۔ اگر کشمیر کے حوالے سے بھی معاملات اسی طرح رہتے تو حالات بہتر ہوتے… اسی طرح اگر سی پیک، بجلی کے منصوبوں یا میٹرو ٹرین سروس وغیرہ کے بارے میں آج کچھ شکایات ہیں تو ضروری نہیں کہ میاں نواز شریف کے جاتے ہی ان منصوبوں کو بند کر دیا جائے بلکہ ان میں جو خرابیاں ہیں انہیں دور کیاجانا چاہیے جو بد عنوانیاں ہیں ان کو ختم کیا جانا چاہیے ۔
جلد باز سیاستدانوں اور نو آموز بچونگڑے اینکرز کو جھنجھنا ہاتھ آ گیا ہے خوب کھیل رہے ہیں گویا نواز شریف عدالت سے باہر آئیں گے تو انہیں ٹھڈے مارتے ہوئے جیل بھیج دیا جائے گا اور اب ماہرین کی ٹیمیں بن گئی ہیں کہ متبادل کون ہوگا ۔ چودھری نثار کی کیا خوبیاں ہیں اور کیا خامیاں ہیں ۔ شہباز شریف وزیر اعظم بن سکتے ہیں یا نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ … یہ سب کیا ہے … عدالت عظمیٰ کواپنا کام کرنے دیا جائے۔ پارٹیاں ، وزرائے اعظم اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں لیکن میڈیا سے ایسا تاثر دیا جا رہاہے کہ اگلے ہفتے اسلام آباد میں عمران خان وزیر اعظم بن رہے ہیں ۔ حالانکہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو مسلم لیگ ن میں سے کوئی وزیر اعظم بنے گا یا بالغرض محال اپوزیشن لیڈر کے سر پر اقتدار کا ہماآن بیٹھے گا… لیکن یہ شور کیا ہے… یہ نہایت نازک معاملات ہیں ۔ ہم برسہا برس سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے لیکن آج یہ بات حقیقت کا روپ دھار گئی ہے کہ پاکستان نازک موڑ پر ہے ۔ کسی ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ اتنی طویل عدالتی اور تحقیقاتی جنگ اس سے بڑھ کر میڈیا ئی جنگ کہیں نہیں چلتی … جتنا مذاق پاکستان کا بھارت میںاڑایا جا رہا ہے اتنا تو کسی کامیڈی شو میں بھی نہیں اڑایا جاتا ۔ افسوس کا مقام ہے کہ گائے کا پیشاب پینے والے بھارتی وزیر اعظم ، انگوٹھا چھاپ وزیر اعلیٰ لالو پرساد ایک جعلی شخصیت نریندر مودی اور انگریز کی وفا داری کا سرٹیفکیٹ تھامے میں جمع کرانے والے آر ایس ایس کے ایڈ وانی جیسے سیاستدانوں کی تاریخ رکھنے والے ملک کا میڈیا پاکستان کا مذاق اُڑا رہا ہے اس کا بڑا سبب ہمارا اپنا سماجی میڈیا بھی ہے ۔ پتا نہیں ہمارا قومی مزاج سنجیدہ کب ہو گا ۔