کراچی (اسٹاف رپورٹر) نئی کنٹرولر کا سابق ٹیچرز پر عدم اطمینان، سندھ نرسنگ ایگزامنیشن بورڈ کی انتظامیہ نے جنرل نرسنگ سال اول، دوم اور سوم سمیت دیگر مضامین کے لیے جانے والے سالانہ امتحانات کی کاپیوں کی دوبارہ چیکنگ کے ساتھ ساتھ وائیوا بھی دوبارہ لنے کا فیصلہ کیا ہے، امیدواروں کا تشویش کا اظہار، امتحانی نتائج غیر معمولی تاخیر کا شکار، ضمنی امتحانات کی تاریخ کا بھی اعلان نہیں ہو سکا، امیدواروں کا عدالت سے رجوع کرنے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق نئی کنٹرولر سندھ نرسنگ ایگزامنیشن بورڈ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سال برائے 2016ء کے لیے جانے والے امتحانات کی کاپیاں دوبارہ چیک کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے وائیوا بھی دوبارہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ نرسنگ ایگزامنیشن بورڈ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امتحانی کاپیوں کو دوبارہ چیک کرنے کے علاوہ وائیوا بھی دوبارہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے امتحانی نتائج 10 ماہ گزر جانے کے بعد غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں۔ امتحانی نتائج کے اعلان کے بعد ضمنی امتحانات کی تاریخ کا اعلان کیا جانا تھا جو اس فیصلے کے بعد مزید تاخیر کا شکار ہوگی۔ ذرائع کے مطابق نئی انتظامیہ کی جانب سے اس فیصلے کے بعد امیدواروں میں شدید تشویش کی لہر پائی جاتی ہے اور ان امیدواروں میں سے بعض کا اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق امیدواروں نے سیکرٹری صحت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ نئی انتظامیہ کے ان فیصلوں کا نوٹس لیا جائے اور یہاں ہونے والی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کرائی جائیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی انتظامیہ کے اس فیصلے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ آج امتحانی کاپیاں چیک کرنے اور وائیوا لینے والے اساتذہ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کاپیوں کو دوبارہ چیک کرنے کے ساتھ ساتھ وائیوا بھی دوبارہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو کل اس بات کا بھی امکان ہے کہ کہیں امتحانات ہی دوبارہ لینے کا اعلان کر دیا جائے بلکہ امتحانی مراکز پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نئے مراکز بنانے کا فیصلہ کر لیا جائے۔ ذرائع کے مطابق اگر اسی طرح کے فیصلے ہوتے رہے تو یہ بہت بڑا نقصان ہو گا جو سندھ میں نرسنگ کے امتحانی نظام کو تباہی سے دوچار کر سکتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر امتحانی نتائج دوبارہ وائیوا اور کاپی کی چیکنگ کے بعد جاری کیے گئے تو پہلے کاپیاں چیک کرنے والے اساتذہ میں بھی بے چینی پھیل سکتی ہے اور اس کے علاوہ امتحانات میں حصہ لینے والے امیدوار نتائج کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر اسی طرح ہر چیز پر عدم اطمینان کا رویہ بڑھتا گیا تو پھر امیدوار کس پر بھروسا کر سکیں گے؟ کیا یہ نظام کی تباہی کے مترادف نہیں ہے؟