حکومتی شخصیات کے ایم سی کے کرپٹ افسران کی سرپرستی میں ملوث نکلیں

189

کراچی (رپورٹ: محمد انور) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ میونسپل سروسز اور آئی ٹی کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کرنے اور کروڑوں روپے کے اخراجات کے باوجود نالوں کی صفائی کرنے میں ناکام سینئر ڈائریکٹر کے خلاف احتسابی کارروائی سندھ کے وزیر بلدیات کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکی جس کی وجہ سے اس بات کے شبہات کو تقویت ملیہے کہ کرپٹ عناصر کی پشت پناہی میں حکومت کی اہم شخصیات خود ملوث ہیں۔ یاد رہے کہ سیکرٹری بلدیات محمد رمضان اعوان نے جو کہ ایک دیانت دار اور فرض شناس افسر کی حیثیت سے مشہور ہیں 6 جولائی کو بلدیہ عظمیٰ کے سینئر ڈائریکٹر مسعود عالم کو معطل کرنے اور ان کے خلاف انکوائری کرانے کے لیے سمری وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ کو بھیجی تھی ۔اس مراسلے میں سیکرٹری نے بتایا تھا کہ مون سون کے دوران ہنگامی حالات کے باوجود کے ایم سی کے سینئر ڈائریکٹر مسعود عالم ڈیوٹی سے غیر حاضر تھے ۔ ان کی عدم موجودگی پر جب میٹروپولیٹن کمشنر سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایکس پاکستان لیو پر ملک سے باہر گئے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے میئر کراچی سے چھٹیاں منظور کرائی ہیں۔مراسلے میں کہا گیا کہ چونکہ گریڈ 19 اور 20کے افسران کی چھٹیوں کی منظوری کا اختیار میئر کراچی کے پاس نہیں ہے اس کے باوجود گریڈ 20کے مسعود عالم نے میئر سے خلاف ضابطہ چھٹیاں منظور کروائیں اور حکومت کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر چلے گئے ۔حالانکہ ان دنوں حکومت نے بارشوں کے موسم کی وجہ سے چھٹیوں پر پابندی عائد اورپہلے سے منظورشدہ چھٹیاں بھی منسوخ کردی تھیں۔ سیکرٹری کی سمری میں سفارش کی گئی تھی کہ سینئر ڈائریکٹر کے اس غیر قانونی اقدام کی وجہ سے انہیں فوری معطل کیا جائے اور ان کے خلاف سخت انکوائری بھی کرائی جائے ۔ذرائع نے بتایا ہے کہ سیکرٹری نے یہ سمری صوبائی وزیر بلدیات جام شورو کو وزیراعلیٰ سندھ تک پہنچانے کے لیے طریقہ کار کے تحت بھیج دی تھی لیکن10 دن گزرنے کے باوجود اس سمری پر سیکرٹری کی سفارش کے مطابق کارروائی نہیں کی گئی بلکہ اس سمری کو وزیراعلیٰ تک پہنچایا بھی نہیں گیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ سمری وزیربلدیات کی ہدایت پر ہی ضروری کارروائی کے بعد ارسال کی گئی تھی لیکن ایسا شبہ ہوتا ہے کہ اس سمری کو وزیراعلیٰ سندھ تک نہ پہنچانے کا جواز بناکر کے ایم سی کے بااثر افسر کے خلاف احسان کیا گیا اور اسے احتسابی کارروائی سے بچالیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ صوبے میں اسی طرح کرپٹ افسران کی حوصلہ افزائی اورپشت پناہی کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ مسعود عالم پر مبینہ طور پر الزام ہے کہ وہ محکمہ جنگلات کے گریڈ 16 کے افسر ہیں لیکن انہوں نے ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر کے ایم سی میں آنے کے بعد 90ء کی دہائی میں اپنی ملازمت کو یہیں پر ضم کرالیا تھا اورغیر معمولی ترقیاں حاصل کرلی تھیں۔شہریوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے وہ اپنے درمیان سے کرپٹ اور کرپشن کو پروان چڑھانے والے عناصر کا سدباب کریں اس کے بعد نیب کو کرپشن کے معاملات پر روکنے کے لیے قانون بنوانے کی کوشش کریں ۔