سی پیک کے آغاز کے ساتھ ساتھ خطے میں طاقت کا توازن بھی تبدیل ہورہاہے اور مختلف قوتوں کی اجارہ داری میں بھی فرق محسوس کیا جارہاہے اس حوالے سے 1962ء کے بعد پہلی مرتبہ چینی افواج نے بھارت سے متصل تبت کی سرحد پر سکم کے علاقے میں بھرپور فوجی مشقیں کی ہیں۔ ان فوجی مشقوں میں چینی افواج نے بھاری ہتھیار استعمال کیے اور اصل ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے باقاعدہ جنگ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ تبت سے متصل سکم سرحد پر چینی فوج کی اچانک سرگرمی نے بھارت میں بھی کھلبلی مچادی۔ ان مشقوں کا وقت بھی بڑا اہم ہے، بھارت ایک جانب سی پیک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اس کے لیے اس نے پڑوسی ملک افغانستان کو اپنا ٹھکانا بنا رکھا ہے۔ دوسری جانب بھارتی افواج پاکستانی سرحدوں پر فائرنگ، گولہ باری اور سرحدی خلاف ورزیوں کا معمول اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خود چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی عروج پر ہے۔ ایسے میں چینی اخبارات نے اپنے دفاعی ماہرین کے حوالے سے کہاہے کہ یہ مشقیں بھارت کے لیے واضح پیغام ہیں کہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے باز رہے۔ چین کی یہ مشقیں محض مشقیں نہیں ہیں اور صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ خطے کے طاقت کے توازن میں تبدیلیوں کے نقطۂ آغاز کا اشارہ بھی ہے۔ پاکستانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو چینی فوجی مشقوں سے پاکستان کو بھی حوصلہ ملا ہے۔ پاکستان مسلسل بھارت، افغانستان اور ایران کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں، گولہ باری اور کبھی کبھی بمباری تک کے واقعات بھگت رہا ہے۔ ایسے میں بھارت کا دوسری جانب بھی اپنی سرحدوں پر چیلنج کا سامنا کرنا اُسے نئے محاذ پر الجھانے کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی بھارت کو سرحدی خلاف ورزیوں اور شہریوں کی شہادت پر واضح پیغام دیا ہے کہ بھارتی حکام کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں سے اپنے فوجیوں کو باز رکھیں ورنہ پاکستان کنٹرول لائن پر بھارت کی سپلائی لائن کاٹ دے گا۔ بھارت کے لیے یہ دو طرفہ وارننگ بھی پریشان کن ہے۔ پاکستانی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی اس دھمکی اور انتباہ کے نتیجے میں فوری طور پر بھارت نے تو کوئی رد عمل نہیں دیا لیکن یہ یقینا بھارت کے لیے واضح پیغام ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں خصوصاً دریائے نیلم کے قریب پاکستانی فوج کی جیپ پر فائرنگ اور چار فوجیوں کی شہادت پر نہایت سخت اور براہ راست تنبیہ ہے۔ بھارت سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اس کے نتیجے میں کوئی بڑی مہم جوئی کرے لیکن چین کی فوجی مشقیں بہر حال اس کے لیے بڑا پیغام ہے۔ اگرچہ چینی فوجی مشقیں اور پاکستانی ڈی جی ملٹری آپریشنز کی دھمکی ابھی ایک بالواسطہ پیغام اور رد عمل ہے لیکن بھارت کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اگر صورتحال اس انداز میں پلٹا کھائے گی تو اس کی ساری سازشیں اس پر ہی اُلٹ جائیںگی۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کی سپلائی لائن کاٹنے کی دھمکی اپنی جگہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ بھارت کارگل کے موقع پر اس کا مزا چکھ چکا ہے لیکن بات اب محض دھمکیوں اور دوسروں کی مشقوں پر انحصار سے بڑھ کر خود کچھ کرنے تک پہنچ چکی ہے۔ اگر پاکستان نے بھارت کو نہیں روکا تو اس کی ہمت اور بڑھے گی۔ بھارت مذاکرات کی میز سے فرار ہوکر اپنی مداخلت کا والی پوزیشن سے ہٹ کر اب پاکستان کو دہشت گرد، مجاہدین آزادی کو دہشت گرد اور غدار قرار دینے لگا ہے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ پاکستان کی جانب سے ہر معاملے کو محض عالمی اداروں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی اور ان عالمی اداروں کی منافقت اور دو رنگی کے باوجود سارا معاملہ ان ہی کی صوابدید پر چھوڑدیتے ہیں۔ اب پاکستان کو ایک طویل عرصے بعد پھر ایسا موقع ملا ہے کہ بھارت کو ہر طرف سے دبائو میں لاکر اسے مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کرسکے۔ اس مقصد کے لیے پاک چین تعاون، امریکا سے اپنی شرائط پر تعاون اور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے صورتحال یقینا بہتر ہوسکے گی۔ یہ سارے کام ایک مضبوط سیاسی حکومت کے کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اسے اتفاق کہیں یا بد قسمتی کہ پاکستان ایک عرصے سے مستحکم سیاسی قیادت اور حکومت سے محروم ہے۔ اب پاناما کیس اس کی طوالت، مقدمے بازی، ثبوت، رپورٹ پھر تحقیق پھر رپورٹ کے طویل عمل نے پورا نظام معطل کرکے رکھا ہوا ہے۔ اس صورتحال کا نقصان بھی پاکستان کو پہنچ رہا ہے۔