خطے کی سیاست فیصلہ کن لمحات

238

Arif Beharچیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل زبیر حیات نے کراچی میں پاک بحریہ کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سی پیک کے خلاف افغانستان سے کام کررہی ہے۔ اسی مقصد کے لیے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کیا جا رہا ہے مگر کوئی غلط فہمی میں نہ رہے دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا۔ جنرل زبیر نے کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ جنرل زبیر حیات کے بیان سے کچھ ہی پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک چونکا دینے والی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف سے کہا گیا تھا افغانستان میں قائم بھارت کے 65قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں اور انہیں بند کرکے ہی جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ان قونصل خانوں میں بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی ایجنسیوں کے لوگ دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان میں داخل کرتے ہیں۔ ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ یاتریوں پر حملہ بھی اسی نیٹ روک کی کارستانی تھی۔ اس حملے میں مرنے والے نچلی ذات کے ہندو تھے۔ عین اسی دوران واشنگٹن میں امریکی ایوان نمائندگان نے ایک ایسے بل کی منظوری دی ہے جس میں پاکستان کی فوجی امداد کو قدر کڑی شرائط سے جوڑ دیا گیا جن پر عمل شاید ہی ممکن ہو اس کے برعکس اس بل میں بھارت کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے کی منظوری دی گئی ہے۔ ایسے موقع پر جنرل زبیر حیات کی طرف سے بہت کھلے لفظوں میں حالات اور واقعات پر تبصرہ بہت معنی خیز ہے۔
پاک فوج اس وقت خطے میں بھارت کی پھیلائی گئی دہشت گردی اور عدم استحکام کی بارودی سرنگوں کو مختلف آپریشنوں اور غیر عسکری مہمات کے ذریعے صاف کر رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ جان جوکھم میں ڈالنے کا معاملہ ہے۔ بھارت کی تمام سرگرمیوں کا مقصد پاک چین اقتصادی راہ داری کو ناکام بنانے اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے سے تھا۔ دو دہائیوں سے یہ کھیل بہت تیزی رفتاری سے جا ری رہا۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں تصادم اور کشیدگی کے شعلے بھڑکائے گئے۔ بغاتوں کی سرپرستی کی گئی اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والا ہر کام کیا گیا۔ ایسے ہر گروہ کی سرپرستی اور معاونت کی گئی جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار کسی نہ کسی انداز سے ادا کر رہا تھا۔ پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر اس سطح پر لانے کی کوشش کی گئی جہاں یہ ایک دیوالیہ ریاست قرار پاتا اور پھر اس کی نئے انداز سے تشکیل کا عمل شروع کیا جاتا۔ تشکیل نو اور تعمیر نو کچھ اس انداز سے کی جاتی کہ بھارت خطے کا بالادست ملک قرار پاتا اور پاکستان، نیپال، بھوٹان نہ سہی بنگلا دیش کی طرح کا ملک ہوتا۔
ایک بار امریکا کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اسلام آباد میں اس حسین صبح کا تصوراتی منظر یہ کہہ کر دکھا گئی تھیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کے بعد پاکستان کی معیشت راکٹ کی رفتار سے ترقی کرے گی۔ پاکستان کے لیے بھارت کا ضمیمہ اور چھوٹا بن کر ترقی کا یہ تصور قطعی قابل قبول نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان کو پہلے اپنوں کے ہاتھوں گرانا مقصود ہے اور پھر اسے بھارت کے ذریعے اُٹھانا مقصد ہے تاکہ ماہ وسال کی طویل گردش اور خوں ریز جنگوں سے تشکیل پانے والے پاکستان کا تصور دشمن تبدیل ہوجائے اور بھارت کی شبیہ ایک دشمن کے بجائے ’’سانتا کلاز‘‘ جیسے کسی مہربان کردار کی ہو رہ جائے۔
افغانستان اور بنگلا دیش جیسے علاقائی مسلمان ملکوں کے لیے شاید ان باتوں کی اہمیت نہ ہو مگر پاکستان کچھ اصولوں اور کچھ تجربات اور مستقبل کے خدشات کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ وہ خدشات ہر گزرتے دن کے ساتھ نکھرتے اور حقیقت بن کر سامنے آتے چلے گئے۔ آج ستر برس بعد بھارت میں انسان اہم ہے یا گائے؟ کا سوال شد ومد سے اُٹھ رہا ہے اور حالات بتارہے ہیں کہ تیزی سے بدلتے ہوئے بھارت میں گائے ایک بھارتی مسلمان سے زیادہ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اسلامو فوبیا کا جو بیج مغرب میں بویا گیا وہ پوری طرح یوں برگ وبار لاچکا ہے کہ اب مسلمان عورتوں کو مغرب میں حجاب کی بنیاد پر حملوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ برطانیہ میں ایک طالبہ پر تیزاب پھینک دیا گیا مگر شاید ایسی عورتوں کی کہانیاں فلمانے کے لیے مغرب میں نہ تو کوئی شرمین عبید چنائے سامنے آئے گی اور نہ اسے ایوارڈز سے نواز ا جائے گا کیوںکہ یہ سب ایک منظم اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اسی طرح مغرب سے متاثر بھارتی انتہا پسندوں نے اسلاموفوبیا کا جو بیج بویا تھا آج وہ بھارت کے گلی کوچوں میں مسلمانوں پر ہونے والے بدترین تشدد کے واقعات کی صورت میں پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان نے مصنوعی ’’سانتاکلاز‘‘ کے دست ِ مہربان سے ٹافیاں وصول کرنے سے انکار کرکے سی پیک کی صورت میں اپنی الگ شناخت اور اقتصادی و سیاسی مستقبل کا انتخاب کیا تو یہ بات بھارت کے لیے قابل ہضم نہیں ہو ہوسکی، اسی لیے بھارت نے پاکستان کو گھیرنے کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔ اس لیے پاک فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ کی طرف بھارت کی سازشوں کا ذکر اور کشمیر کی بات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پاک فوج خطے میں چینی کی ریڈ آرمی کی شراکت دار ہے اور دونوں افواج بھارتی فوج کے ساتھ بہت کشیدہ حالات میں ہیں۔