نوازشریف منی ٹریل دینے میں ناکام رہے‘ عدالت عظمیٰ

188

اسلام آباد (نمائندہ جسارت )پاناما کیس کی سماعت کرنے والی عدالت عظمیٰ کے 3رکنی بینچ نے قرار دیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف منی ٹریل دینے میں ناکام رہے ہیں ،ان کی نااہلی کا فیصلہ شواہد کی بنیاد پر ہوگا ، عدالت اس چیز کا بھی جائزہ لے گی کہ مقدمہ نیب کو بھیجا جائے یا نااہلی کا فیصلہ سنایا جائے۔منگل کو جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی۔عدالتی کارروائی کو دیکھنے کے لیے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔عدالت عظمیٰ کا بینچ سماعت کے دوران کافی جارحانہ موڈ میں تھا اور بینچ میں موجود جج صاحبان نے وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو ‘ٹف ٹائم’ دیا اور اْن سے ان کے موکل کے اثاثوں اور لندن فلیٹس کے بارے میں سوالات کیے جس پر وہ کافی دباؤ میں نظر آئے۔ عدالت نے جے آئی ٹی میں شریف خاندان کی طرف سے دیے گئے ردعمل پر بھی ریمارکس دیے کہ ‘اْن کی اپروچ یہی تھی کہ جے آئی ٹی کو کچھ نہیں بتانااور کچھ تسلیم نہیں کرنا ‘جوکرنا ہے جے آئی ٹی خود کرے۔حقائق چھپائے گئے اور جوابات نہیں دیے‘کوئی کہتا ہے یادنہیں‘کسی نے کہا اکاؤنٹینٹ کوپتاہوگا‘ یہاں تک کہ وزیراعظم نے تواپنے خالوکوہی پہچاننے سے انکارکردیا تھا‘ 7برس لندن فلیٹس میں رہے اورکہاکہ ملکیت کا علم نہیں شاید حسن نوازکا ہوگا۔اگر آپ دستاویزات نہیں دیں گے تو کوئی تونکال لائے گا۔وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو 13سوالات کے جوابات تلاش کرنے کوکہاتھا لیکن انہوں نے 15سوالات بنالیے ، جو مقدمات ختم ہوچکے ہیں جے آئی ٹی نے ان کی بھی پڑتال کی، آمدن سے زیادہ اثاثوں کو بھی سوال بنالیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی اگر کسی خفیہ جائداد کی نشاندہی کرتی ہے تو کیا یہ غلط ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بہت سے معاملات آپس میں ملے ہوتے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا، جب تک مکمل تحقیقات نہ ہو مکمل معاملے کو دیکھنا ہوگا، تمام مقدمات کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا، عدالت کو دیکھنا تھا کہ رقم کہاں سے آئی۔خواجہ حارث کی طرف سے جب یہ سوال اْٹھایا گیا کہ دستاویزی ثبوت صرف وہی تسلیم کیے جائیں گے جو ایک ملک کی حکومت دوسرے ملک کی حکومت کو بھیجتی ہے جس پر بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی نے برطانیہ کے متعلقہ اداروں کو ہی خط لکھا ہوگا ملکہ کو تو چٹھی نہیں لکھی جاسکتی، اس پر کمرہ عدالت میں ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔عدالت کی طرف سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے والیوم نمبر 10کو عام کرنے پر رضامندی ظاہر کرنے پر وزیراعظم کے وکیل نے کوئی ردعمل نہیں دیا اور اس بارے میں خاموشی اختیار کرلی۔عدالت نے قراردیا کہ وزیراعظم کے وکلا اپنے دلائل سے مطمئن نہیں کرپائے تھے اس لیے جے آئی ٹی بنائی اور شریف خاندان کو صفائی کا پورموقع دیا، بینچ کے سربراہ نے کہا کہ کیس آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے، اثاثوں اورآمدن کی دستاویز شریف خاندان نے دینا تھیں، وزیراعظم کا کام تھا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتاتے لیکن شریف خاندان کا زورصرف اس پر ہے کہ جے آئی ٹی نے یہ دستاویز نہیں دکھائی وہ نہیں دکھائی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اس کی سفارش کردی، سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیںاس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملکیت کی دستاویزات کے ذرائع ثابت کرنا پڑیں گے ،یہاں کریں یا احتساب عدالتمیں کریں۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے نہیں پوچھا تو ہم پوچھ رہے ہیں نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین ہیں یا نہیںجس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایف زیڈ ای کا مالک حسن نواز ہے، وزیراعظم کے پاس صرف چیئرمین کا عہدہ ہے ، وہ کمپنی سے تنخواہ نہیں لیتے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ ان کے اوپر یہ الزام غلط ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ جی ہاں، یہ الزام غلط ہے اور کاغذات بھی یہی کہتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے دبئی میں کام کرنے کے لیے اقامہ تولیا تھا،جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں لکھا ہے کہ کتنی قانونی معاونت آئی ہے کتنی نہیں آئی ، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ سربمہرکیوں ہے، اگر آپ اصرار کریں تو اسے بھی کھولا جا سکتا ہے۔ آپ جب چاہیں متفرق درخواست میں دستاویزات کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کو تمام دستاویزات نوازشریف کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس کے لیے انہیں جے آئی ٹی سے پہلے عدالت میں بھی موقع دیا گیا، یہ الگ بات ہے کہ رپورٹ میں مزید بہت کچھ سامنے آگیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے اثاثے آمدن سے زیادہ تھے تو جے آئی ٹی بتاتی، رپورٹ میں شامل چیزوں پر جے آئی ٹی نے ہم سے نہیں پوچھا، دستاویزات پرجے آئی ٹی نے جرح نہیں کی اورجرح کے بغیرتمام رپورٹ یکطرفہ ہے، اس رپورٹ کی بنیاد پرٹرائل شفاف نہیں ہو سکتا۔ جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت ایک سال سے پوچھ رہی ہے، اب بتا دیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یا ر اب پوچھ رہے ہیں بتا بھی دو ،جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم جے آئی ٹی میں گئے ان کا کام تھا پوچھتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب وضاحت دے دیں ہم سننے کو تیار ہیں اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تحریری وضاحت جمع کرائوں گا ۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی اور خواجہ حارث نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کوشش کروں گا اپنے دلائل مکمل کرلوں ۔