رین ایمرجنسی کہا ں گئی

165

Edarti LOHکراچی کے خود ساختہ بے اختیا ر میئر وسیم اختر نے شہر میں بارش کی نئی لہر کے حوالے سے رین ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شہریوں کو یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ میئر کو رین ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار تو ہے۔ لیکن جب بارش آئی تو شہر میں کہیں رین ایمرجنسی سینٹرز اور رین ایمرجنسی نظر نہیں آئی۔ منگل کے روز لیاقت آباد میں عمارت گر گئی جس سے چھ افراد جاں بحق ہوگئے۔ میئر صاحب اور بلدیہ و بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے محض مخدوش عمارت قرار دینے یا پرانی عمارتوں کے مکینوں کو احتیاط کرنے کا مشورہ دے کر اپنی ذمے داری پوری کرلی تھی۔ لیکن اس عمارت اور اس کے اوپر مزید غیر قانونی تعمیر ات کی اجازت کس ادارے نے دی تھی اور کیوں کر وہ یہ تعمیرات کررہا تھا۔ اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں کراچی میں بارش کے ساتھ ہی سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں ۔ کے الیکٹرک کو تو کیا روئیں، واٹر بورڈ اور کے ایم سی کے کچرے کو جب بارش سڑکوں پر لاتی ہے تو چند گھنٹوں میں لاکھوں کروڑوں روپے کی سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ اس ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے جبکہ حادثات بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں میئر کراچی صرف اختیارات کا رونا روکر جان نہیں بچا سکتے۔ شہر بھر کی صفائی، نالوں کی صفائی، گٹروں کے ڈھکنوں کی غیر موجودگی اور گٹر لائنیں بند ہونے کے ذمے دار تمام اداروں کے افسران کا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ لوگ تو محض نوٹس لے لیا اور ہدایت کردی، جیسے الفاظ پر مشتمل خبر جاری کردیتے ہیں اور شہری باعث رحمت بارش کو زحمت کے طور پر بھگتنے پر مجبو ر ہیں ۔ بلدیہ کراچی، واٹر بورڈ ، بلڈنگ کنٹرول اور حکومت سندھ اتنے بھی بے اختیار اور مجبور نہیں کہ شہر کو صاف اور محفوظ نہ رکھ سکیں ۔ بس یہ اپنی ذمے داری ادا کریں مسائل خود حل ہو جائیں گے اور اختیارات بھی مسئلہ نہیں رہیں گے۔ بدھ کی بارش میں لوگ راستے تلاش کررہے تھے سڑکیں بھی غائب تھیں اور رین ایمرجنسی بھی ۔